اشاعتیں

اپریل, 2023 سے پوسٹس دکھائی جا رہی ہیں

سنبل شہزادی افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 تین بجتے ہی احمر کی حالت خراب ہونے لگی اور وہ نیند میں جھٹکے کھانے لگا۔اگلی صبح منیر صاحب نے احمر کو تھپکی دیتے ہوئے کہااحمر بیٹا کیا ہوا ہے؟پتا نہیں منیر صاحب!جب سے یہاں واپس آیا ہوں۔تو گھر آتے ہی تھکاوٹ سے چُور بدن تو بستر نشین ہو جاتا ہے۔لیکن روح کسی انجان راہ کی طرف نکل جاتی ہے۔کیا مطلب ہے تمھارا؟ منیر صاحب میں کچھ راتوں سے خواب میں کسی عورت کو دیکھ رہا ہوں اور وہ عورت بڑی عجیب و غریب حالت میں تھی۔اس کے ہاتھ میں کوئی لال رنگ کا کپڑا تھا اور اس کے پیچھے ایک بہت خوبصورت چمکتا ہوا چاند تھا۔وہ کپڑا وہ مجھے دینا چاہ رہی تھی لیکن میں اس تک پہنچ نہیں پاتا۔جس کی وجہ سے وہ روتی ہے۔اچھا پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔شام کو جب احمر کمرے سے نکلا تو ہال میں اپنے والد اور منیر صاحب کو گفتگو میں محو پایا۔احمر سیڑھیوں میں تھاکہ اتنے میں منیر صاحب نے سوال کیا کہ تم نے اس عورت کا کیا کیا؟احمر کےوالد نے جواب دیاکہ میرا اس گھٹیا عورت سےکوئی واسطہ نہیں ہےاور میری طرف سے قبر میں جائے۔یہ باتیں احمر کے کانوں میں سیسہ کی مانند پگھل رہیں تھیں کہ اتنے میں منیر صاحب بولے،تم جانتے ہو وہ ماں ہے احمر کی۔دوسری

آمنہ جعفر افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 گڈو اور پپو دروازے میں بیٹھے اپنے باپ کی راہ تک رہے تھے اور ساتھ ہی آنے جانے والوں کے ہاتھوں میں پکڑے لفافوں میں موجود کھانے کے سامان کو بھی دیکھ رہے تھے کیونکہ افطار کا وقت قریب تھا لیکن راشد ابھی تک افطار کا سامان لے کر گھر نہیں پہنچا تھا۔ ماں اندر سے اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی تھی۔ " اندر آ جاؤ بچوں افطار کا وقت ہے اللہ کے حضور دعا کرو۔"  آخر کار بچے بھی تھک کر اندر چلے گۓ۔ ماں کیا روز کی طرح آج بھی ہم روزہ پانی سے افطار کریں گے۔ گڈو بولا۔  اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی گڈو نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور کیا دیکھتا ہے کہ روز کی طرح باپ خالی ہاتھ گھر آیا ہے۔گڈو خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔ آج بھی کام نہیں ملا کیا؟ رضیہ نے راشد سے پوچھا  نہیں اور میری جیب میں جتنے پیسے تھے انکی بس یہ کجھوریں لا پایا ہوں۔ راشد نے جیب سے چار کجھوریں نکال کر رضیہ کو دیں۔ کوئ بات نہیں ہم پانی اور کجھور سے ہی روزہ افطار کر لیں گے رضیہ نے سب کر ایک ایک کجھور دی اور روزہ افطار کیا۔ وقت گزرتا گیا لیکن انکے حالات مزید بدتر ہو گۓ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔ فاقوں سے پریشان ہو کر، گھر کے حالات اور اپنے بچوں

مہوش اسد شیخ افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 صنف آہن مقابلہ افسانچہ  عید مبارک صنف آہن مہوش اسد شیخ ” باجی کپڑے تو آپ نے بہت پیارے سیئے ہیں۔ “ کلثوم باری باری تمام جوڑوں کو اپنے ساتھ لگا کر دیکھ رہی تھی۔ ” اچھا باجی! میں نے افطاری کی تیاری بھی کرنی ہے، اب میں چلتی ہوں۔“ اس نے جلدی جلدی کپڑے لفافے میں ڈالے اور چادر سنبھالتی مرکزی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ ” بہنا پیسے تو دیتی جائیے۔“ رضیہ درزن نے پیچھے سے ہانک لگائی۔ کلثوم کے قدم ٹھٹھک گئے۔ ” وہ باجی دراصل بات یہ ہے کہ عید کی شاپنگ میں ساری تنخواہ نکل گئی لیکن آپ فکر نہ کریں اگلے مہینے کی تنخواہ ملتے ہی سب سے پہلے آپ کے پیسے ہی ادا کروں گی۔“ اس نے مسکین صورت بنا کر کہا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ رضیہ خالی دروازے کو دیکھتی رہ گئی۔ اک یہی رقم تو اس کی امید کا سہارا تھی۔ اسے بھی اپنے یتیم بچوں کے لیے عید کی تیاری کرنی تھی اور عید کے روز گھر میں کچھ اچھا پکانا تھا۔ آنکھوں میں نمی اتر کر سامنے کا منظر دھندلا کر گئی اور اس دھند میں ماضی کا منظر روشن ہو گیا۔ شوہر کے ساتھ گزری عیدیں آنکھوں میں آن ٹھہریں۔ وہ بھی کتنے مان سے کتنے چاؤ سے چاند رات کو چوڑیاں پہنا کرتی تھی، مہندی سے ہاتھوں کو سجایا

صبا اسلم افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 عنوان: عید مبارک صنفِ آہن ازقلم: صبااسلم الفاظ:-871 او میڈم جی رکو!اندر کہاں جارہی ہو؟میں نے کہا رک جاٶ۔۔۔۔۔۔۔ پارس نے اپنے پیچھے آتے گارڈکی ایک نہ سنی اور آفس میں داخل ہوتے ہی بوس پر جا برسی۔ سر آپ میرے ساتھ۔۔۔۔ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔؟؟  میں نے اس جاب کےلیے انٹرویو دیا تو آپ نے مجھے خود سلیکٹ کیا تھا تو پھر آپ یہ جاب کسی اور کو کیسے دے سکتے ہیں۔۔۔۔پارس غصےمیں بولتی ہی جارہی تھی کہ تبھی بوس نے غصےمیں ہاتھ ٹیبل پر دےمارا۔ بکواس بند کرو۔۔۔یہ آفس ہےتمہارےباپ کاگھر نہیں،۔۔اور رہی بات جاب کی تومیں تم جیسے مڈل کلاس لوگوں کو جاب پر رکھناپسندنہیں کرتا۔۔۔۔۔۔اس لیے بہتر ہےکہ۔۔۔۔۔۔۔۔ گھرجاکر جھاڑو پونچا کرو۔۔یہی اوقات ہے تم لوگوں کی۔ میری اوقات کیا ہے۔۔۔؟ یہ تو وقت بتاۓگااور میری محنت اور کوشش تمہیں بتاۓگی کے تمہاری اوقات کیا ہے پارس نے بینہ سوچے سمجھے اپنی بھڑاس نکال دی  جیس پر بوس نے غصے میں گارڑ کو بلایا  گارڑ ۔۔۔۔۔گارڑ اس پاگل لڑکی کو یہاں سے دھکے مار کر نکالو اور یاد رہے کہ آج کے بعد یہ یہاں پر نہیں آنی چاہیۓ   گارڑ پارس کو بازو سے کھینچ کر باہر لے گیا اور دھڑم سے فرش پر گیرا دیا پارس کا

رمشاء انصاری افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 اپنوں کی خوشی عید میری۔ رمشاانصاری اماں!!! پیسے دے دو نہ دیکھو سامنے والی عرشیہ بھی مہندی لگوانے جائے گی مجھے بھی لگانی ہے۔پندرہ سالہ ایمان منہ بسورے اپنی ماں سے مخاطب تھی۔اس کی بات سن سلائی مشین پر بیٹھی رضیہ کے کام کرتے ہاتھ رکے تھے،اس نے موٹے فریم کے چشمے کو آنکھوں سے ہٹاکے انگلیوں سے آنکھوں کے کنارے کو دبایا تھا۔پورا دن کام کرنے کے بعد اب اس کی آنکھیں بھی تھکاوٹ سے درد کرنے لگی تھیں۔آج آخری روزہ اور چاند رات تھی جس کی وجہ سے اسے گھر کے کاموں کے  ساتھ سلائی کے کپڑے بھی نمٹانے تھے۔سلائی کے آنے والے پیسے اس نے لوگوں سے پہلے ہی ایڈوانس لے کر رمضان میں خرچ کردئیے تھے اور اب وہ سوچوں میں گم تھی کہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کیسے پوری کرے؟؟؟شوہر روز کی مزدوری کرنے والا تھا آمد عید پر کام سے فارغ ہوکے بیٹھ گیا تھا۔اس مہنگائی کے دور میں غریب طبقے کے لوگوں کے لئے آٹا کھانا مشکل ہوگیا تھا،ایسے میں گھر کے ایک افراد کی کمائی سے بھلا کیسے گزارا ہوسکتا تھا ؟؟اپنے شوہر اور بچوں کے لئے ہی وہ اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت کررہی تھی مگر اب جیسے آدھی رات کو اس کی ہمت ٹوٹ گئی تھی ۔تھکن سے زیادہ خالی

ظل ہما افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
  صنف آہن عید الفطر افسانچہ مقابلہ عنوان "عید کے رنگ اپنوں کے سنگ" مصنفہ ظل ہما لاہور  "ماما پاپا رمضان کا چاند نظر آ گیا سب کو رمضان مبارک"گیارہ سالہ اسامہ چھت سے اچھلتا کودتا سیڑھیاں   اترتا  اپنے پورشن کا دروازہ کھول کر اندر بھاگا۔اندر ظہیر  اور فرح یہی خبر ٹی وی پر سن کر اپنے دونوں بڑے بچوں کے ساتھ خوشی خوشی مبارک سلامت کا تبادلہ کررھے تھے۔"فرح میں ذرا نیچے امی ابو کو بھی مبارک دے آوں ۔ تم چلو گی ؟. ان کی بات پر فرح نے جن نظروں سے ظہیر صاحب کو دیکھا وہ خود ہی شرمندہ ہو کر نیچے والی سیڑھیوں کی طرف چلے گئے۔  "ماما ماما نیچے ایمبولینس آئی ہے۔"فرح افطاری کے لئے سموسے بنا رھی تھی جب اسامہ کی پکار پر پریشان ہوگئی ۔اتنے میں نماز پڑھنے کے لئے گئے ظہیر حواس باختہ سے اندر آئے "فرح ماریہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ایمرجنسی میں شوکت خانم لے کر گئے ہیں۔میں نیچے جارھا ہوں۔تم؟۔۔۔۔"ان کی سوالیہ نظروں کے جواب میں فرح نے سوچنے کے لئے ایک لمحہ لیا اور ہاتھ صاف کرتی ظہیر کے ساتھ جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی ۔ "یا مالک میرے بیٹے کا گھر بچا دینا۔میرے پوتے پوتیوں کے س

نمرہ امین افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
  رائیٹر، نمرہ امین، لاہور مقابلہ۔افسانچہ "عید مبارک صنف آہن" الفاظ کی تعداد۔ 555  آج بھی ساری رات اُس کو نیند نہیں آئی اُس کے کانوں میں بار بار اپنے بیٹے کی آواز آرہی تھی، جو کہہ رہا تھا کہ امی کیا اِس بار بھی ہم عید پر نئے کپڑے نہیں لیں گے، اچھے کپڑے نہیں پہنے گے، اچھا کھانا نہیں کھائیں گے، یہی باتیں سوچ سوچ کر وہ پریشان ہو رہی تھی اور اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے ارادہ کیا کہ وہ خود اب بہت محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کے حالات کو بہتر کرے گی، سب کو اچھے کپڑے لے کر دے گی، اور اُن کے گھر بھی کھانا بن سکے گا۔صبح جب وہ کام ڈھونڈنے گئی اُس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سب نے اُس کو باتیں کی، بُرا بھلا کہا، کسی نے کوئی کام نہیں دیا، تم عورت ہو کیسے کام کرو گی، تم سے محنت ہوگی ہی نہیں، وہ آج پھر یہ سب باتیں سُن کے تھک ہار کر گھر واپس آگئ، امی آج بھی آپ کھانا لے کر نہیں آئی ہمیں بھوک لگ رہی ہے، اِس آواز نے اُس کو ایک بار پھر سے چونکا دیا وہ تڑپ اُٹھی اور پھر گھر سے باہر نکل گئی کام کی تلاش میں  کبھی وہ کسی کے جوتے صاف کرتی، کبھی  کہیں جھاڑو دیتی، تب بھی اُس کو اتنے پیسے نہی

اقراء اکبر افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 بقلم:اقراء اکبر شہر:سرگودھا مقابلہ کہانی عنوان: عید مبارک صنف آہن امی، امی کیا اس بار بھی ہم عید نہیں منائیں گے؟؟ میرے سب دوستوں نے کپڑے لیے ہیں اور آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں لے کر دیا. اب وہ مجھے اپنے ساتھ کھیلنے ہی نہیں دیں گے.  نہیں... گڈو ہم بھی ضرور عید منائیں گے کیونکہ اللہ پاک نے سارے مسلمانوں کو لیے عید بنائی ہے. تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو اللّٰہ کچھ نہ کچھ سبب بنا دیں گے اور میں سلمٰہ باجی سے بھی اگلی تنخواه ایڈوانس میں لے لیتی ہوں.  باجی جی، باجی کیا مجھے اگلے مہینے کی تنخواه آج ہی مل سکتی ہے میں نے نہ گڈو کے لیے عید کے کپڑے لینے ہیں. اس کے ابّا بھی نہیں ہیں نہ تو مجھے ہی اس کی ساری ضرورتیں پوری کرنی ہوتی ہیں. اب اگر اسے کل نئے کپڑے نا ملے تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور عید پڑھنے نہیں جائے گا آپ پلیز مجھے کچھ ایڈوانس دیں دے باقی تنخواه جب مرضی دے دیجیےگا میں نہیں کہوں گی. ارے... او کم ذات بس کر ابھی ہی تو پندرہ تاریخ کو تجھے میں نے دی تھی تنخواه اور آج اکیس ہے تو نے کدھر لگا دیے... تیرے کون سے خرچے ہیں؟؟ باجی گڈو کی فیس دی تھی اور گھر کے خرچے بھی تو ہیں. اچھا اچھا رہنے دے، سب

ہانیہ ارمیا افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 افسانچہ  عید مبارک صنف آہن  قلم کار: ہانیہ ارمیا  الفاظ: 967 مارچ کے آغاز سے شاکرہ اس سوچ میں غرق تھی کہ رمضان سر پہ ہے اور بچے نوعمر۔ عام دنوں میں تو سادہ کھانا کھا لیتے ہیں مگر روزہ رکھنے کے بعد خواہش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو معمول سے ہٹ کر کھانے کو ملے۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں کلاس دوئم کی استانی تھی مگر تین ماہ سے تنخواہ کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا۔ شوہر دو سال پہلے فوت ہوچکا تھا۔ دو بیٹوں کی پرورش اور گھر کی تمام تر ذمے داری اب اس پہ تھی۔ دو ماہ تو جیسے تیسے گزر گئے مگر اب تو جمع پونجی بھی سکوں کی صورت میں منہ چڑھا رہی تھی۔ وہ کبھی کچن کے خالی ڈبے دیکھتی تو کبھی بیٹوں کے معصوم چہرے۔ عزت نفس ہاتھ پھیلانے نہ دیتی تھی اور سفید پوشی کی چادر کو وہ کبھی سر پہ ڈال لیتی تو کبھی پاؤں ڈھک لیتی۔ تمام رات جاگتی اور صبح ہوتے بیٹوں کو لے کر اسکول چلی جاتی۔ "میڈم کیا میں اندر آ جاؤں؟" پرنسپل کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر شاکرہ سے سوال کیا۔ "ہاں جی تشریف لے آئیں مس۔" "میڈم آپ مصروف تو نہیں۔"    "نہیں نہیں، شاکرہ بولو۔" (پرنسپل نے نرمی سے کہا)وہ شا

قراۃالعین شفیق افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
نام قراۃالعین شفیق ساہیوال   عنوان عید مبارک صنف آہن   سلطانہ جلدی جلدی سے اپنے گھر کے سب سے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئی- جہاں عورتوں کا جم غفیر تھا اتنی عورتیں دیکھ کر من ہی من میں لڈو پھوٹنے لگے- آج کمائی اچھی ہوگی سلطانہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتی تھی میڑک پاس کرنے کے بعد اس کے والدین نے پہلے رشتے کو ہاں کہہ کر اسے بوجھ سمجھ کر اتارنے کی کوشش کی- سلطانہ کی توقع سے زیادہ بے حس ساس ملی- سلطانہ عباس سے سلطانہ راشد ہوگئی تھی راشد زیادہ نہیں تو تھوڑا احساس کرجاتا سلطانہ کی خوبصورتی کو مفلسی دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی- سلطانہ کا بہت شوق تھا کہ اس کا بھی ایک پارلر ہو راشد کی منت سماجت کرکے اس نے ایک سرکاری ادارے میں بیٹویشن کورس کا آغاز کیا اس کی دن رات کی محنت اور شوق نے اسے اس کام میں ماہر بنادیا- کورس سیکھنے جاتی گھر کو سنبھالتی دن بھر کی محنت سے تھکن زدہ جب وہ بستر پر لیٹتی تو شوہر کے طعنے شروع ہوجاتے- اس کے آنسو اس کے گلے شکوے صرف اس کا تکیہ سنتا تھا جو صبح ہونے سے پہلے خشک ہوجاتا تھا پہلے ایک پارلر میں سیکھنے کی غرض سے گئی تنخواہ کم سےبھی کم تھی- لیکن اسے سیکھنا تھا اس نے دن رات محن

منظم حیات افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 ماہ روش  منظم حیات  پاکپتن  الفاظ کی تعداد: 999 کبھی درد مند پھول دیکھا ہے؟ جو صرف خوشبو بانٹتا ہے۔ جو اپنے ساتھ لگے کانٹے اس ڈر سے اکھاڑ پھینکتا ہے کہ کہیں کسی کو چبھن کا احساس نہ ہو۔  وہ ایسی ہی تھی۔ ایک درد مند پھول کی طرح، جو اپنی ساری زندگی دوسروں کی نذر کر دیتے ہیں۔ مگر وہ کوئی سرخ پھول نہیں تھی۔ وہ سیاہ پھول تھی۔ ہاں، اس پھول کی ساری سرخی وقت کی سفاکی میں بہہ چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی خوشبو کی طرح مہکتی رہی۔ کیوں کہ ماہ روش عالم ایک ماں تھی۔  ۔۔۔۔۔۔۔۔  ماہ روش عالم ایک جاگیردار باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ عالم خان شہر کے جانے مانے رئیس تھے۔ بیٹی کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ ہر خواہیش زبان پر آنے سے پہلے پوری کر دیتے۔ اس قدر لاڈ پیار نے بھی کبھی ماہ روش عالم کو بگڑنے نہیں دیا۔ ماہ روش کی والدہ نے اپنی بیٹی کی تربیت دین کے مطابق کی۔ اسے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا۔ اور اس طرح وہ ایک درد مند پھول بن گئی۔  ۔۔۔۔۔۔۔  والدین اپنی اولاد کو دنیا کی ہر آسائش دے لیں۔ مگر ان کا نصیب نہیں لکھ سکتے۔ ماہ روش نے والدین کے گھر جتنی آسائشیں میسر تھی۔ وہ اسے سسرال میں میسر نہ آ سکی

عائشہ اسماعیل افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔ مہرین کی تین بیٹیاں تھیں اور ایک چھوٹا بیٹا تھا۔ شوہر کو فوت ہوے ایک سال ہوچکا تھا۔ عید سر پر تھی۔ رمضان تو جیسے تیسے گزر رہا تھا مگر عید پر وہ بچوں کو تھوڑی خوشی دینا چاہتی تھی۔ گندم کے سیزن میں اس نے بالیاں بیچ کر سال بھر کی گندم جمع کر لی تھی۔ وہ اور اس کی بیٹیاں پورا دن کپڑوں پر کڑھائی کرتیں اور اس کی جو اجرت بنتی اس سے گھر کا خرچ بمشکل چلاتیں۔ عید پر وہ بیٹیوں اور بیٹے کا ایک ایک جوڑا لینا چاہتی تھی۔ اس نے رات کو بچوں کو سلا کر خود کڑھائی کرنا شروع کردی۔کبھی آدھی رات کبھی پوری رات جاگ کر کام کرتی رہی۔ عید کا دن آچکا تھا۔ ایک دن پہلے اسے اجرت مل چکی تھی۔ عید پر اس نے بچوں کو تیار کر کے نئے کپڑے پہنائے۔ اور بچوں سے مل کر انہیں عید مبارک کہا۔ خود اس نے پرانے جوڑے کو دھو کر پہن رکھا تھا۔ اور تو کوئی انہیں عید مبارک کہنے والا نہیں تھا بچوں کو اس نے مبارک دی اور ندائے قدرت اسے مبارک باد دے رہی تھی " عید مبارک صنف آہن" از قلم: عائشہ اسماعیل

فاطمہ خان افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
( صنف نازک سے صنف آہن) از قلم فاطمہ خان    آفس کی کھڑکی سے باہر کی رونقیں دیکھ رہی تھی کسی نے سچ ہی کہا تھا جتنا بڑا شہر ہو اتنی بڑی تنہائی ہوتی ہے وہ ماضی کے پنوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی جہاں ایک اور ہی دنیا تھی گھر اس کے لاڈ اٹھانے والے ماں باپ فون کی گھنٹی نے تسلسل کو توڑا میڈم پاس *والے* گاؤں کے جاگیر دار صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں   ٹھیک ہے آپ انھیں بھیج دیں تو کیا کہتے ہیں جاگیر دار صاحب آپ کو یہ ڈھیل منظور ہے جی بلکل اسی لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں وہ بہت خوش ہوئی اتنی خوش کے اس کے گالوں پر سے کہی آنسو نکل کر بے نام و نشان ہو گے وہ ایک بار پھر ماضی میں قدم رکھنے لگی جہاں اس کے بابا اس کی چھوٹی سی چھوٹی خواہش پوری کرتے تھے اور ماما اکثر اس بات پر ناراض ہو جاتی تھی کے آپ بچی کو بگاڑ رہے ہیں تب وہ مسکرا کر رباب کو سینے سے لگایا کرتے اور بولتے یہ بیٹی نہیں بیٹا ہے میرا رباب بہت ہونہار طلبہ تھی بہت اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کیا اب شہروز خان نے اس کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا رشتے دار اور خود زلیخا نے بھرپور مخالفت کی کے لڑکی کو پڑھانے کی کیا ضرورت ہے لیکن شہروز خان نے کسی کی

ثناء سحر افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
عنوان : عید مبارک صنف آہن نام : ثناء سحر(اوچشریف) الفاظ کی تعداد: 1000 جیسے جیسے رمضان گزرتا جارہا تھا شازمہ کی پریشانی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ گھر کا راشن' عید کی تیاریاں گھریلو اخراجات نے اس نو عمر لڑکی کے لیے کئی مسائل پیدا کیے ہوئے تھے۔   آپی' آپی ۔۔۔ نمرہ شازمہ کا کندھا ہلاتی ہے  شازمہ کسی سوچ میں ڈوبی ارد گرد سے انجان تھی۔ آپی یار کدھر گم ہے آپ ۔۔؟ میری پیاری آپی سنیں ناں ۔۔۔۔  شازمہ کو گلے لگاتے نمرہ نے فرمائشیں شروع کردی۔۔ مجھے عید والے دن میری دوست کے جیسے کپڑے اور جوتے لینے ہیں ۔ آپی ہم کب جائے گے کپڑے اور جوتے لینے؟   چھوٹی کی فرمائش سن کر شازمہ کے آنسو حلق میں اٹک گئے ۔ سکول سے تنخواہ وہ پہلے ہی اڈوانس لے چکی تھی ۔ اب نمرہ کی خواہشات اور امی کی دوائیاں خریدنے کے لیے وہ پارٹ ٹائم ٹیوشنز اور سلائی کا کام کر رہی تھی۔ جس کی جمع پونجی ملا کر وہ نمرہ کی عید کی تیاری کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔  چاند رات میں وہ نمرہ کو ساتھ لیے اس کی پسندیدہ فراک ، جوتے ، چوڑیاں، مہندی وغیرہ لے آئی۔۔  تاکہ اس کی ننھی گڑیا کی خوشی میں کوئی کمی نہ رہے۔ بیس سالہ شازمہ اپنے گھر کی واحد ک

اقصی سرور افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
عنوان: عید مبارک صنف آہن  ماہم جلدی سے اٹھو سحری کرلو جھوٹے بھائی بہن کو بھی اٹھاؤ سولہ سال کی ماہم اپنی ماں کی آواز پر اٹھتی ہے اور بہن بھائی کو بھی اٹھاتی ہے سب سحری کرنے بیٹھتے ہیں بھائی جو کہ دونوں بہنوں سے چھوٹا ہے ماما کو کہتے یہ ہوئے روٹی اٹھا رہا ہوتا ہے کہ ماما آج 26 واں روزہ ہوگیا ہے ہمیں نئے کپڑے کب لاکے دیں گی۔ ماما علی کو تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں بیٹا آج میں جاؤں گی کام پر تو تنخو ا کا پوچھوگی پھر سب کو نئے کپڑے لا کے دوں گی سب سحری کرتے ہیں اور ہیں نور بانو بچوں تو سکول بھیج کر اپنے کام پر روانہ ہو تی ہے جو کہ وہ گھروں کی صفائی کرکے بچوں کا پیٹ اتنی مہنگائی میں بمشکل پال رہی ہوتی ہے کام سے فارغ ہونے کے بعد مالکوں سے اپنی تنخوا کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس دفعہ پہلے دے دیں تاکہ میں بچوں کے عید کے کپڑے خرید سکوں کوئی بھی مالکن ایسا کرنے پر راضی نہ تھیں ۔ نور بانو صبر کرتے ہوئے گھر جاتی ہے دل میں اللہ سے دعائیں کرتی ہیں کہ کوئی سبب بن جائے اور پھر روٹین کو طرح سب چلتا رہتا ہے وہ محنت کرتی ہے یوں ہی گزرتے دن 29 واں روزہ ہو جاتا ہے اور اقراء اپنی بہن ماہم کے ساتھ افطاری کے بر

رمشاء بنت صغیر افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 *صنفِ آہن کو عید مبارک* رمشاء بنت صغیر احمد(فیصل آباد) ”دفع ہو جاو میری زندگی سے دوبارہ شکل نہی دِیکھانا اپنی مجِھے،جب سے آی ہو ،زندگی عذاب کر رکھی ہے“ اس کے قطار کی صورت گرتے آنسو موبائل کی سکرین پہ جانے کب جَذ ب ہوتے گے ، جسم نڈھال ہو گیا ،اپنا وجود اس قدر کمزور محسوس ہو رہا تھا گویا کہ ابھی لڑکھڑا کر گِر جاے ۔موبائل آف کر کے اپنے گھٹنوں پہ سر رکھ مسلسل روۓ جا رہی تھی ۔سوچو میں گم ، دل میں کسی کی چاہ رکھ کر کسی دوسرے شخص کو نکاح میں قبول کرنا ،ماں جو ہر وقت نگران مقرر کی ہوئ ،باپ جو بیٹی کی محبت کا پتا چل جانے کے بعد بیٹی ماننے سے انکاری ، مستقبل کے خدشات ،لوگوں کے رویے ، اللّٰہ کے غضب کا ڈر ،مکافاتِ عمل کا خوف محبوب کی جدائ کا دکھ اور محبوب کا یہ رویہ اسکی جان کا روگ بن رہا تھا اسکا بکھرے وجود کے سارے بخیے اُدھیڑ چکا تھا۔ وہ روز جتنا سمیٹ رہی تھی ساری بکھر گئ ،سوچ رہی تھی محبوب چاہے جیسا بھی ہو جزبات ،احساسات،صحت اور دل و دماغ پہ اثر رکھتا ہے ، سوچ رہی تھی کہ کیا کروں ؟ دل میں کسی کی چاہ رکھ کے گھر والوں کی مرضی سے نکاح کر لے؟ اگر کرے تو اسکے شوہر کا کیا قصور ہو گا کہ اسکی بیوی

حجاب فاطمہ افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 ڈاکٹر بننا شروع سے اس کا خواب تھا اور یہ اس کے لٸے مشکل ثابت بھی نہیں ہوا وہ شروع سے ہی بہت ذہین تھی اور سکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے ماں باپ پر کوٸی پڑھاٸی کا بوجھ بھی نہیں تھا۔ وہ ڈاکٹر بن کر اپنا خواب تو پورا کر چکی تھی مگر آگے زندگی اس کے لٸے آسان ثابت نہیں ہوٸی۔ وہ شادی کر کے ایک بڑے گھرانے میں گٸی تھی جہاں جواٸنٹ فیملی سسٹم تھا۔ عید سر پر تھی اس کی ناٸٹ شفٹس نے زندگی اس کے لٸے اور مشکل کر رکھی تھی۔ دن میں گھر کے کام کاج اور رات میں ڈیوٹی۔ آج چاند رات پر بھی وہ ڈیوٹی پر تھی مگر تھکن سے نڈھال۔ دن بھر وہ عید کی تیاری میں مصروف تھی۔ آخری روزے کے افطار کی تیاری،عید کی نماز کے لٸے کپڑے تیار کرنا ،گھر میں عید کی صبح کے لٸے میٹھا تیار کرنا،کھانے کاسامان تیار کرنا یہ سب کر کے وہ ڈیوٹی پر پہنچی تھی تا کہ جب وہ صبح گھر جاۓ تو اس کے کام کافی حد تک مکمل ہوں تا کہ وہ گھر والوں کے ساتھ عید اچھے سےگزار سکے اور ان کی عید بہتر بنا سکے۔ کسی بھی چیز میں اس کی طرف سے کمی نہ رہے مگر ان سب میں اس کو آرام کا وقت کہیں بھی میسر نہیں ہوا۔ اب رات کی ڈیوٹی اس کو مزید تھکا رہی تھی۔ ایسے میں جب صبح ہوٸی تو اس

سیدہ فاطمہ افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
  عید الفطر افسانچہ مقابلہ   مقابلہ عنوان صنف آہن   سیدہ فاطمہ  الفاظ کی تعداد 500 روز روز لڑائی جھگڑے سے تنگ آکر نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھرتی کہ کہیں کام مل جائے تو سکھ کا سانس لے۔  ماہم بیگم صاحبہ دور کسی شہر میں رہائش پذیر تھیں۔ محلے میں کسی نے بتایا کہ انہیں ملازمہ کی ضرورت ہے۔ ماہم کو پتہ چلا تو اس نے ایڈریس لیا اور وہاں بنگلہ میں پہنچی ٫ دروازے پر دستک دی۔ تو اندر سے آ واز آ ئی کون ہے؟ میم میم مجھے آ پ کے گھر کا پتہ چلا کہ آ پ کو ملازمہ کی ضرورت ہے تو میں کام کرنے  آ ئی ہوں۔ بیگم صاحبہ ! بولی اچھا ٹھیک ہے٫ کام کیا کیا کر لیتی ہو؟  کھانے میں کیا کیا پکانے آ تا ہے؟ ماہم ! مجھے کھانے میں سب کچھ پکانے آ تا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بیگم صاحبہ نے کہا اچھا ٹھیک ہے کل سے کام شروع کر لو ۔ دوسرے دن ماہم خوشی خوشی کام پر بنگلہ میں پہنچی اور کچن میں چلی گئی ۔ بیگم صاحبہ سے پوچھا کہ آ ج کھانا کیا پکانا ہے ٫ جواب ملا بریانی اور قورمہ٫ کڑاہی ٫ روٹیاں یہ سب پکانے ہیں ۔۔۔۔ ماہم نے جب  اتنی سارے کھانے کے بارے میں سنا تو حیران ہو گئی تھی-  کھانا پکانا شروع کیا اور کچھ گھنٹے میں کھانا تیار کر لیا۔ او

ماہم کرن ریاض افسانچہ برائے مقابلہ

تصویر
 " دیکھیں ہمیں اس وقت ٹیچرز کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ضرورت ہوئی تو آپکو کال کر دی جائے گی۔ " پرنسپل نے کہا ۔  " جی " وہ بس اتنا ہی کہہ سکی ۔ وہ اُداس سے باہر کی جانب چل دی ۔۔ ____________ " کیا ہوا اتنی اُداس کیوں ہو ؟ " یونی ورسٹی کے پارک میں عصبہ اُداس بیٹھا دیکھ کر سارہ نے کہا ۔ " کیا ؟" عصبہ جو اپنی ہی سوچوں میں گھوم تھی اچانک سے چونک اٹھی ۔ " اففف ہو ! عصبہ کیا ہوگیا ہے تمھیں ؟" " کچھ نہیں! وہی گھسا پٹا جواب ہمیں ابھی ضرورت نہیں ہے ٹیچرز کی وغیرہ۔ " عصبہ نے غصّے اور افسوس کے ملے جلے جذبات سے کہا ۔ " فکر نہ کرو انشا اللہ! مل جائے گی جاب ۔" سارہ نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔ " انشاء اللہ " ۔ ________ " یہ اچانک سے امی کو کیا ہوگیا ہے؟ " عصبہ نے تشویش سے سامنے بیٹھے سفید کوٹ میں موجود ڈاکٹرسے پوچھا ۔ " آپکی والدہ کو خون کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی کمزور اور بیمار رہنے لگیں ہیں " ڈاکٹر نے کہا ۔ " یہ میں آپکو کچھ دوائیاں لکھ کر دیں رہا ہوں باقاعدگی سے اپنی دینی ہیں ۔ اور انکی غذا