عائشہ اسماعیل افسانچہ برائے مقابلہ


 اسے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ کیا کرے۔

مہرین کی تین بیٹیاں تھیں اور ایک چھوٹا بیٹا تھا۔ شوہر کو فوت ہوے ایک سال ہوچکا تھا۔
عید سر پر تھی۔ رمضان تو جیسے تیسے گزر رہا تھا مگر عید پر وہ بچوں کو تھوڑی خوشی دینا چاہتی تھی۔ گندم کے سیزن میں اس نے بالیاں بیچ کر سال بھر کی گندم جمع کر لی تھی۔
وہ اور اس کی بیٹیاں پورا دن کپڑوں پر کڑھائی کرتیں اور اس کی جو اجرت بنتی اس سے گھر کا خرچ بمشکل چلاتیں۔
عید پر وہ بیٹیوں اور بیٹے کا ایک ایک جوڑا لینا چاہتی تھی۔
اس نے رات کو بچوں کو سلا کر خود کڑھائی کرنا شروع کردی۔کبھی آدھی رات کبھی پوری رات جاگ کر کام کرتی رہی۔
عید کا دن آچکا تھا۔ ایک دن پہلے اسے اجرت مل چکی تھی۔ عید پر اس نے بچوں کو تیار کر کے نئے کپڑے پہنائے۔ اور بچوں سے مل کر انہیں عید مبارک کہا۔
خود اس نے پرانے جوڑے کو دھو کر پہن رکھا تھا۔ اور تو کوئی انہیں عید مبارک کہنے والا نہیں تھا بچوں کو اس نے مبارک دی اور ندائے قدرت اسے مبارک باد دے رہی تھی " عید مبارک صنف آہن"

از قلم: عائشہ اسماعیل

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں