ظل ہما افسانچہ برائے مقابلہ

 

صنف آہن عید الفطر افسانچہ مقابلہ
عنوان "عید کے رنگ اپنوں کے سنگ"
مصنفہ ظل ہما لاہور 

"ماما پاپا رمضان کا چاند نظر آ گیا سب کو رمضان مبارک"گیارہ سالہ اسامہ چھت سے اچھلتا کودتا سیڑھیاں   اترتا  اپنے پورشن کا دروازہ کھول کر اندر بھاگا۔اندر ظہیر  اور فرح یہی خبر ٹی وی پر سن کر اپنے دونوں بڑے بچوں کے ساتھ خوشی خوشی مبارک سلامت کا تبادلہ کررھے تھے۔"فرح میں ذرا نیچے امی ابو کو بھی مبارک دے آوں ۔ تم چلو گی ؟. ان کی بات پر فرح نے جن نظروں سے ظہیر صاحب کو دیکھا وہ خود ہی شرمندہ ہو کر نیچے والی سیڑھیوں کی طرف چلے گئے۔
 "ماما ماما نیچے ایمبولینس آئی ہے۔"فرح افطاری کے لئے سموسے بنا رھی تھی جب اسامہ کی پکار پر پریشان ہوگئی ۔اتنے میں نماز پڑھنے کے لئے گئے ظہیر حواس باختہ سے اندر آئے "فرح ماریہ کی طبیعت بہت خراب ہے۔ایمرجنسی میں شوکت خانم لے کر گئے ہیں۔میں نیچے جارھا ہوں۔تم؟۔۔۔۔"ان کی سوالیہ نظروں کے جواب میں فرح نے سوچنے کے لئے ایک لمحہ لیا اور ہاتھ صاف کرتی ظہیر کے ساتھ جانے کو اٹھ کھڑی ہوئی ۔
"یا مالک میرے بیٹے کا گھر بچا دینا۔میرے پوتے پوتیوں کے سر پر ان کی ماں کا سایہ سلامت رکھنا"عابدہ بیگم کے بین سن کر سب حاضرین کے دل پسیج رھے تھے۔فرح کے سامنے فلم کی طرح ماضی کے مناظر چل رھے تھے۔"اٹھاؤ اپنا سامان اور دفع ہوجا یہاں سے"یہی عابدہ بیگم خاموشی سے آنسو بہاتی فرح کے جہیز کے برتن اٹھا اٹھا کر پھینک رھی تھیں اور پیچھے کھڑی ان کی بھانجی اور بہو ماریہ جیٹھانی کی خالہ کے ہاتھوں یہ درگت بنتی دیکھ کر فاتحانہ نظروں سے فرح کو دیکھ رھی تھی۔  فرح اور ظہیر چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ اوپر بنے خستہ سے کمرے میں شفٹ ہوگئے ۔باقی پورشن انھوں نے شفٹ ہونے کے بعد تیار کروایا تھا۔فرح نم آنکھوں کے ساتھ اس وقت کی اذیت کو دل پر محسوس کر رہی تھی کہ عابدہ بیگم کے اپنے سامنے جڑے ھاتھ دیکھ کر چونک گئی"مجھے معاف کر دو بیٹی  تمہارے ساتھ کی گئی زیادتیوں کی ہی شاید یہ سزا مل رہی ھے۔"وہ  آنکھوں میں آنسو لیے کہہ رھی تھیں۔"نھیں آنٹی پلیز ایسے نہ کہیں جو ہوا ،قسمت میں ایسے ھی لکھا تھا"اس نے آگے بڑھ کر ان کے بندھے ہاتھ کھول دیے۔
پھر فرح کے لیے رمضان کے بابرکت مہینے میں ایک  طویل صبر آزما آزمائش کا آغاز ہوگیا۔ماریہ کی کیمو تھراپی شروع ھو چکی تھی۔ادھر فرح کے تین بچے اور ظہیر،ماریہ اور سمیر کے چاروں بچے،سمیر اور بیمار ساس سسر سب فرح کی ذمہ داری بن گئے۔نیچے والے پورشن کی حالت شاید ماریہ کی بیماری کی وجہ سے ابتر تھی۔کام والی الٹے سیدھے ہاتھ مار کر چلی جاتی۔پہلے تو فرح نے کام والی کے ساتھ ملکر تفصیلی صفائی کروائی۔اس کے بعد سحری اور افطاری کی روٹین سیٹ کی ۔سسر شوگر بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ان کے علاوہ سب کا روزہ ہوتا تھا۔عابدہ بیگم عرصہ ہوا جوڑوں کے درد کی وجہ سے کام چھوڑ چکی تھیں ۔ماریہ کے چھوٹے پانچ سالہ بیٹے کے علاوہ بڑے تینوں بیٹوں ،سمیر اور ساس نے روزہ رکھنا ہوتا تھا۔ان کے علاوہ ظہیر صاحب اور اس کے تینوں بچے بھی تھے۔فرح تہجد کے نوافل کے بعد آٹا گوندھ کر نیچے لے آتی۔سالن افطاری کے بعد ہی نیچے پکا جاتی تھی۔سحری کا ٹائم شروع ہوتے ہی  ظہیر صاحب اور اس کے بچے بھی نیچے آ جاتے۔سب کی فرمائش پوری کرنے میں وہ گھن چکر سی بن جاتی۔کسی کو سحری میں پراٹھا چاہیے ہوتا تھا اور کسی کو سوکھی روٹی،بچوں کی سلائس سینڈوچ کی فرمائش اس کے علاوہ ہوتی تھی۔دہی، لسی،آملیٹ، چائے وہ بھاگم بھاگ سب کی فرمائش پوری کرنے کی کوشش کرتی ۔اسامہ سے  سال بڑی اس کی 12 سالہ بیٹی ثناء تھوڑی بہت مدد کروا دیتی۔ماریہ کے چاروں بیٹے  ہی ضدی اور شرارتی تھے ۔ماں کی غیر موجودگی کی وجہ سے پریشان ،وہ اور زیادہ تنگ کرتے۔سب سے چھوٹا پانچ سالہ حیدر عین  سحری کے ٹائم اپنا باجا بجانا فرض سمجھتا۔اس کو فیڈر یا پھر کوئی اور چیز اسی وقت چاہیے ہوتی تھی جب سحری کا ٹائم ختم ہونے والا ہوتا۔سحری کے بعد کچھ دیر ہی سونا ملتا پھر سسر کو ناشتہ کرانے نیچے آتی تو افطاری کی کچھ تیاری اس  وقت کر کے رکھ دیتی ۔ماریہ کا پرہیزی کھانا بنا کر ھسپتال بھجواتی۔ساتھ ساتھ کام والی گھر کی صفائی کر دیتی۔اوپر اپنے پورشن جانے  کے بعد ادھر کے ضروری کام نمٹانے اور نماز تلاوت وغیرہ سے فارغ ہوتے ہوتے افطاری کی تیاری شروع ہو جاتی۔کچھ چیزیں اس نے اکٹھی بنا کر فریز  کر دی تھیں لیکن روز ہی بچوں کی فرمائش پر  کچھ نہ کچھ نیا بنانا پڑ جاتا۔کسی بچے کو افطاری میں چکن پکوڑے چاہیے ہوتے تھے تو کسی کو چیز  موموز.
روزے کے ساتھ ہلکان سی فرح سب کی فرمائش پوری کرنے میں جتی رہتی لیکن اس کے باوجود وہ ماتھے پر  بل نہ لاتی۔ اس مقدس مہینے میں کی گئی اپنی اس نیکی کو وہ ناشکری کرکے ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی۔انتیسویں روزے ماریہ گھر آ گئی تھی اور اس نے رو رو کر فرح سے معافی مانگی تھی جس نے کھلے دل سے اسے معاف کردیا تھا۔شوال کا چاند نظر آگیا تھا۔فرح چاند دیکھ کر خضوع و خشوع سے دعا مانگ رہی تھی کہ اسے اپنے پاس سرگوشی سنائی دی"چاند مبارک بیگم صاحبہ ۔آپ نے ثابت کردیا کہ عورت صنف نازک نہیں بلکہ صنف آہن ہے ۔سو عید مبارک صنف آہن صاحبہ"شکر گزاری سے کہتے ظہیر صاحب کا لہجہ آخر میں شرارتی ہوگیا تو فرح نے شرما کر ان کی آغوش میں منہ چھپا لیا۔

تبصرے

  1. بہت عمدہ ۔معمول سے ہٹ کر موضوع کا انتخاب کیا گیا اور اسے برتا بھی بہت اچھے طریقے سے کیا گیا۔مصنفہ کے لئے نیک خواہشات

    جواب دیںحذف کریں
  2. کچھ خاص سمجھ نہیں آیا ایسا محسوس ہورہا جیسے سبق پڑھ رہے ہوں

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں