رمشاء انصاری افسانچہ برائے مقابلہ


 اپنوں کی خوشی عید میری۔
رمشاانصاری
اماں!!! پیسے دے دو نہ دیکھو سامنے والی عرشیہ بھی مہندی لگوانے جائے گی مجھے بھی لگانی ہے۔پندرہ سالہ ایمان منہ بسورے اپنی ماں سے مخاطب تھی۔اس کی بات سن سلائی مشین پر بیٹھی رضیہ کے کام کرتے ہاتھ رکے تھے،اس نے موٹے فریم کے چشمے کو آنکھوں سے ہٹاکے انگلیوں سے آنکھوں کے کنارے کو دبایا تھا۔پورا دن کام کرنے کے بعد اب اس کی آنکھیں بھی تھکاوٹ سے درد کرنے لگی تھیں۔آج آخری روزہ اور چاند رات تھی جس کی وجہ سے اسے گھر کے کاموں کے  ساتھ سلائی کے کپڑے بھی نمٹانے تھے۔سلائی کے آنے والے پیسے اس نے لوگوں سے پہلے ہی ایڈوانس لے کر رمضان میں خرچ کردئیے تھے اور اب وہ سوچوں میں گم تھی کہ اپنے بچوں کی چھوٹی چھوٹی فرمائشیں کیسے پوری کرے؟؟؟شوہر روز کی مزدوری کرنے والا تھا آمد عید پر کام سے فارغ ہوکے بیٹھ گیا تھا۔اس مہنگائی کے دور میں غریب طبقے کے لوگوں کے لئے آٹا کھانا مشکل ہوگیا تھا،ایسے میں گھر کے ایک افراد کی کمائی سے بھلا کیسے گزارا ہوسکتا تھا ؟؟اپنے شوہر اور بچوں کے لئے ہی وہ اپنی ہمت سے بڑھ کر محنت کررہی تھی مگر اب جیسے آدھی رات کو اس کی ہمت ٹوٹ گئی تھی ۔تھکن سے زیادہ خالی جیب اور بیٹی کی معصومانہ خواہش نے اس کی ہمت چھین لی تھی
اماں شاید تم بہت تھک گئی ہو سارا دن سے کام کررہی ہو کتنا رہ گیا ؟ اپنی ماں کی غیر ہوتی حالت دیکھ وہ خدا کی رحمت اپنی خواہش بھلائے متفکر ہوتی پوچھنے لگی تھی۔
کچھ نہیں چندا بس آخری قمیض رہ گئی ہے رقیہ کی وہ مکمل کردوں، رضیہ ہمت مجتمع کرتی پھر سے سیدھی ہوکے سلائی مشین کی ہتھی چلانے لگی تھی۔
اماں تم بہت تھک گئی ہو چھوڑو بس رقیہ باجی کو واپس دے دو ان کی قمیض ۔ایمان اپنی ماں کا اترا ہوا چہرہ دیکھ ضد کرنے لگی تھی۔
نہیں ایمان میں رقیہ سے سارے کپڑوں کے پیسے پہلے  لے چکی ہوں آگر ابھی میں اس کا کام مکمل نہیں کروں گی تو یہ وعدہ خلافی ہوجائے گی اور پھر رقیہ   کبھی بھی کام نہیں دے گی،رضیہ خشونت سے کہتی کام میں مصروف ہوگئی تھی۔ایمان بھی اپنی ماں کے قریب بیٹھ کر اسے کام کرتی دیکھنے لگی تھی۔کچھ وقت سرکنے کے بعد رضیہ نے رقیہ کے کپڑے تھیلے میں ڈال کر سلائی مشین بند کی اور لیٹ کر آرام کرنے لگی ۔ایمان رضیہ کے پیر دبانے لگی تھی جو شگر کے مرض کی وجہ سے سوجن کا شکار تھے۔رضیہ آنکھیں موندے دل میں خود کو للکارنے لگی تھی کہ وہ کیسی ماں ہے جو اپنی بیٹی کو عید کی چھوٹی سے خوشی نہیں دے پارہی تھی۔اس کے پاس اتنے بھی پیسے نہیں تھے کہ وہ مہندی خرید کر خود ہی اپنی بیٹی کے ہاتھوں پر لگا دیتی تاکہ کل عید کے دن جب وہ اپنی سہیلیوں سے ملتی تو ان کے مہندی سے رنگے ہاتھ دیکھ کے احساس نہ کرتی۔وہ ابھی سوچ ہی رہی تھی جب لکڑی کا بوسیدہ سا دروازہ کھول کر رقیہ ہانپتی ہوئی پریشانی سے آنکھیں پھیلائے گھر میں داخل ہوئی تھی۔
ارے رضیہ باجی تم سے ایک کام پڑگیا ہے یہ میری بھتیجی کی قمیض سی دو ۔اسے کل عید کے دن پہننی ہے دراصل اس نے جس درزن کو دی تھی اس کی طبیعت خراب ہوگئی تو اس نے واپس کرکے معزرت کرلی ۔اب میری بے چاری بھتیجی پریشان گھوم رہی ہے !!! میں بڑی آس لے کر تمہارے پاس آئی ہوں ،بھلے تم اپنی منہ مانگی قیمت وصول کرنا۔رقیہ کی بات سن رضیہ کے چہرے پر مسرت سی چھائی تھی۔وہ خوشی سے اٹھ بیٹھی تھی۔
ہاں رقیہ ضرور !! اس نے خوشی سے کہا تھا جب ایمان درمیان میں بول پڑی تھی
نہیں اماں تم صبح سے کپڑے سلائی کررہی ہو اب بہت تھک گئی ہو اس لئے رقیہ باجی اماں تمہارے کپڑے نہیں سلائی کریں گی۔ایمان نے اضطرابی کیفیت میں نفی کی تھی اس کی بات سن رقیہ نے برا سا منہ بنالیا تھا۔
ارے نہیں رقیہ یہ تو جھلی ہے تو بس مجھے قمیض دے جا اور دو گھنٹے بعد لے جانا بس مجھے پیسے پہلے دے دے مجھے کچھ کام ہے ۔رضیہ تجسس سے گویا ہوئی تو رقیہ خوش ہوتی اس کے ہاتھ میں دو ہزار روپے رکھ گئی۔
یہ لے میری بچی تو بھی مہندی لگوالے اور پسند کی چوڑیاں لے آ ،رقیہ کے جاتے ہی رضیہ نے پانچ سو کا نوٹ ایمان کے ہاتھ میں تھما دیا تھا۔ اپنی ماں کی بات سن کر ایمان خوشی سے آگے بڑھ کر ان کے گلے لگ گئی تھی۔
اماں تم میرے لئے اتنی تھکن میں بھی کام کرو گی اماں تم بہت اچھی ہو اپنی عید کی خوشیاں چھوڑ کر تم ہماری عید سنوارنے کے لئے اتنی محنت اور صبر کررہی ہو ،وہ ان کے گلے سے لگے جزباتی ہوگئی تھی۔
میرا پتر ایک عورت کی عید اس کے اپنوں کی خوشی سے ہوتی ہے اس کے اپنے خوش تو وہ اس دنیا کی سب سے خوش ترین انسان ہے۔چل اب تو جا اپنی سہیلی کے ساتھ اور ہاں صبح کے لئے ایک سیویاں کا بھی پیکٹ لے آنا تمہارے ابا نماز پڑھ کے آئیں گے تو میٹھا کھائیں گے ! رضیہ کا چہرہ بھی خوشی سے جگمگا رہا تھا اس کی بات سن ایمان خوشی سے جھومتی باہر کی طرف لپکی تھی۔اپنی ساری تکلیفیں بھلاتی رضیہ بھی سلائی مشین دوبارہ چلانے لگی تھی۔
دو گھنٹے لگاتار کام کرنے کے بعد اس نے ایک خوبصورت سی قمیض تیار کردی تھی۔اس بار تھکن کا زرا بھی احساس نہیں تھا خوشی سے سرشار ہوتے دل کے ساتھ وہ اپنی بیٹی کی منتظر تھی۔چند پلوں بعد ایمان نے گھر میں داخل ہوکے سب سے پہلے رضیہ کو اپنے ہاتھوں کی خوبصورت مہندی اور چوڑیاں دکھائی تھیں۔
اماں اب کل میں بھی اپنی دوستوں کو اپنی مہندی اور چوڑیاں دکھائوں گی اور ہاں اماں یہ لو تمہاری سیویاں کا پیکٹ ،ایمان نے چہکتے ہوئے سیویاں کا پیکٹ نکال کر رضیہ کے آگے کیا تھا جس کے اوپر کشادہ اور خوبصورت الفاظوں سے"عید مبارک صنف آہن" لکھا ہوا تھا۔

تبصرے

  1. ظل ہما
    عام سا موضوع اور لکھا بھی عام طریقے سے۔کچھ نیا پن محسوس نہیں ہوا۔مصنفہ کے لئے نیک خواہشات

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں