سنبل شہزادی افسانچہ برائے مقابلہ
تین بجتے ہی احمر کی حالت خراب ہونے لگی اور وہ نیند میں جھٹکے کھانے لگا۔اگلی صبح منیر صاحب نے احمر کو تھپکی دیتے ہوئے کہااحمر بیٹا کیا ہوا ہے؟پتا نہیں منیر صاحب!جب سے یہاں واپس آیا ہوں۔تو گھر آتے ہی تھکاوٹ سے چُور بدن تو بستر نشین ہو جاتا ہے۔لیکن روح کسی انجان راہ کی طرف نکل جاتی ہے۔کیا مطلب ہے تمھارا؟ منیر صاحب میں کچھ راتوں سے خواب میں کسی عورت کو دیکھ رہا ہوں اور وہ عورت بڑی عجیب و غریب حالت میں تھی۔اس کے ہاتھ میں کوئی لال رنگ کا کپڑا تھا اور اس کے پیچھے ایک بہت خوبصورت چمکتا ہوا چاند تھا۔وہ کپڑا وہ مجھے دینا چاہ رہی تھی لیکن میں اس تک پہنچ نہیں پاتا۔جس کی وجہ سے وہ روتی ہے۔اچھا پریشان نہ ہو سب ٹھیک ہو جائے گا۔شام کو جب احمر کمرے سے نکلا تو ہال میں اپنے والد اور منیر صاحب کو گفتگو میں محو پایا۔احمر سیڑھیوں میں تھاکہ اتنے میں منیر صاحب نے سوال کیا کہ تم نے اس عورت کا کیا کیا؟احمر کےوالد نے جواب دیاکہ میرا اس گھٹیا عورت سےکوئی واسطہ نہیں ہےاور میری طرف سے قبر میں جائے۔یہ باتیں احمر کے کانوں میں سیسہ کی مانند پگھل رہیں تھیں کہ اتنے میں منیر صاحب بولے،تم جانتے ہو وہ ماں ہے احمر کی۔دوسری طرف لفظ ماں سے ناآشنا احمر نجانے کس سوچ میں گم ہو چکا تھا۔”احمر“ ”احمر“ منیر صاحب چلائے لیکن احمر ہوش میں نہ آیا۔دو دن بعد جب احمر کچھ بہتر ہوا تو پہلا سوال یہی کیاکہ آپ کس ماں کی بات کررہے تھے؟احمر کے والد نے احمر کو آگ اُبلتی آنکھوں سے دیکھا اور ہسپتال سے باہر چلے گئے۔احمر منیر صاحب کی طرف سوالیہ نظروں کے ساتھ دیکھ رہا تھا۔منیر صاحب احمر کو ہسپتال سے دور ایک پرانے سے مکان میں لےگئے۔احمر نے پوچھا یہ کون سی جگہ ہے۔تو منیر صاحب نے جواب دیا کہ یہ تمھارا گھرہے۔میرا گھر! ہاں جب تم پیدا ہوئے تو تمھارے گھر کے حالات خراب تھے اور تمھارے والد نے یہ کہہ کر جان چُھرا لی کہ پیدا کیا ہے اس کو تو خود ہی پالو۔تمھاری ماں ایک صابرہ عورت تھی۔اس نے لوگوں کے گھروں سمیت بہت جگہوں پر کام کیا۔سورج کی قہر برساتی گرمی میں بیچ چوراہے پر بننے والی سڑک پر پتھر کوٹنے کا کام کیا۔تاکہ تمھارا پیٹ بھر سکے۔ گندی نظر اور نظریہ کو وہ برداشت نہ کر پاتی مگر جب تمھارا روتاچہرا دیکھتی تواپنی نظریں جھکا لیتی تھی۔مگر تمھارا باپ اپنی ذمہ داریوں سے دُور رنگیلی دنیا میں رہتاتھا۔منیر صاحب کی باتیں احمر کو تیر جیسی لگ رہیں تھیں۔جانتے ہو احمر تمھاری ماں نے تمھارا نام احمر کیوں رکھا؟ کیوں کہ احمر کا مطلب ہے ”سرخ رنگ کا“ جس دن تم پیدا ہوئے تھے وہ چاند رات تھی اور تمھاری ماں کے پاس تمھیں ڈھانپنے کے لیے سوائے اپنی ایک لال چادر کے کچھ نہ تھا۔وہ جب دوسروں کو خوبصورت لباس میں دیکھتی تو دل میں سسکتی اور یہی سوچتی کہ میں بھی اپنے بچے کو اگلی عید پر نیا جوڑا دلواؤں گی۔مگر!مگر کیا منیر صاحب؟یہی افسوس کی بات ہےکہ تمھاری ماں کی کمائی تمھارا باپ کھا جاتااور بعد میں اُسے مارتا پیٹتا۔یہ سلسلہ دو تین سال چلتا رہامگر اگلے سال جب رمضان شروع ہوا تو تمھاری ماں کو خون کی الٹیاں آنے لگیں۔دن رات کڑی محنت کے باوجود اس نے ہمت نہ ہاری۔اور اُس رمضان میں بالآخر اُس نے تمھارے جوڑے کے لیے پیسے اکٹھےکر لیے تھے۔اس نے نم آنکھوں سے اللہ کا شکر ادا کیا اور تمھارے لیے نیاجوڑا لینےگئی۔مگر جب واپس آئی تو تمھارا باپ دوسری شادی کر کے آچکا تھا اور اس نے تمھاری ماں کو طلاق دے دی اور کہاں کہ تمھارا احمر سے کوئی تعلق نہیں ہے۔اور اُسے مار پیٹ کر نکال دیا۔منیر صاحب میں آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔خدارا! مجھے بتائیں کیامیری ماں زندہ ہے؟میں ایک دفعہ اس سے لپٹنا چاہتا ہوں۔نجانے وہ میرے لیے کتنا تڑپی ہوگی۔احمر بیٹاصبر کرو تمھاری طبیعت ٹھیک نہیں۔منیر صاحب! میری تو دنیا ہی ٹھیک نہیں۔منیر صاحب بولیے نا! دراصل تمھاری ماں اپنے گاؤں واپس چلی گئی تھی۔یہاں کہ لوگ اُسے جینے نہیں دے رہے تھے۔جب تم پچھلے مہینے آئے تو تمھارے باپ کے ذریعے پتاچلا کہ وہ اسی گھر میں دوبارہ آگئی ہے اور اپنے باقی دن یہی گزارنا چاہتی تھی۔ مگر! مگر کیا منیر صاحب! ابھی ہفتہ پہلے کی بات ہے وہ لاپتہ ہوگئی ہے۔میں نے اپنے طور پر بھی تحقیق کروائی مگر اس کا کچھ پتہ نہیں چلا۔اور پتا چلے گا بھی نہیں۔احمر کے باپ نے پیچھے سے غرّاتے ہوئے کہا! احمر نے فوراََ اپنے باپ کا گریبان پکڑ لیا اور کہاکہ تم جیسا شخص زندہ رہنے کے قابل نہیں ہے۔تم نے صرف میری ماں نہیں ایک عورت کی بھی توہین کی ہے۔منیر صاحب نے اُن کو پیچھے کیا۔احمر نے باپ سے پوچھاکہ بتاؤ میری ماں کہاں ہے؟مجھے یقین ہے کہ تم ضرور جانتے ہو۔وہ وہیں ہے جہاں اُسے ہونا چاہیے تھا۔منیر صاحب بولےکیا بکواس کر رہے ہو؟وہ عورت جان چکی تھی کہ یہ واپس آیا ہے اور وہ اس سے ملنے کی کوششیں کر رہی تھی۔اگر یہ کہوں کہ تم اس کا ساتھ دے رہے تھے تو زیادہ مناسب ہوگا۔کیوں ٹھیک کہاں نا منیر میاں۔احمر نے اپنے باپ پر چلاتے ہوئے کہاں کہ میری ماں کہاں ہے؟مجھے بتاؤ ورنہ میں تمھارا قتل کر دوں گا۔احمر کے باپ نے ایک لال رنگ کا جوڑا اس کے منہ پر مارا اور کہایہ تمھاری ماں تمھیں دینے آئی تھی اور میں نے اُسے ہی لال رنگ میں نہلا دیا۔احمر بے ساکتہ زمین پر گِر پڑا اور اپنےہوش کھو بیٹھا۔اس کے ہاتھ میں وہ لال رنگ کا جوڑا اُسے اپنی ماں کا بہتاخون نظر آرہا تھا۔اتنی دیر میں پولیس آئی اور احمر کے باپ کو لے گئی۔احمر اس جوڑے کےساتھ وہیں زمین پر لپٹا ہوا تھا کہ اس کے کانوں میں یہ اعلان گونجا کہ چاند نظر آگیا ہےاور کل عید ہوگی۔احمر نے وہ لال جوڑا اپنے سینے سے لگایااور زار و قطار رونے لگا۔اپنی ماں کی محبت سے انجان مگر اس کی ہمت و بہادری کو یادکرتے ہوئے احمر بس یہی کہہ پایا! ”عید مبارک صنف آہن“
نام: سنبل شہزادی
شہر: سیالکوٹ
ظل ہما
جواب دیںحذف کریںکہانی کا مرکزی خیال اچھا تھا مگر مصنفہ موضوع کے ساتھ انصاف نہیں کرسکیں۔کہانی میں فلمی پن نمایاں تھا۔مصنفہ کے لئے نیک خواہشات
ماشاءاللہ ۔۔۔اچھا لکھنے کی کوشش کی گئی ہے
جواب دیںحذف کریں