اقراء اکبر افسانچہ برائے مقابلہ


 بقلم:اقراء اکبر
شہر:سرگودھا

مقابلہ کہانی
عنوان: عید مبارک صنف آہن
امی، امی کیا اس بار بھی ہم عید نہیں منائیں گے؟؟ میرے سب دوستوں نے کپڑے لیے ہیں اور آپ نے مجھے کچھ بھی نہیں لے کر دیا. اب وہ مجھے اپنے ساتھ کھیلنے ہی نہیں دیں گے. 
نہیں... گڈو ہم بھی ضرور عید منائیں گے کیونکہ اللہ پاک نے سارے مسلمانوں کو لیے عید بنائی ہے. تم اپنا دل چھوٹا نہ کرو اللّٰہ کچھ نہ کچھ سبب بنا دیں گے اور میں سلمٰہ باجی سے بھی اگلی تنخواه ایڈوانس میں لے لیتی ہوں. 

باجی جی، باجی کیا مجھے اگلے مہینے کی تنخواه آج ہی مل سکتی ہے میں نے نہ گڈو کے لیے عید کے کپڑے لینے ہیں. اس کے ابّا بھی نہیں ہیں نہ تو مجھے ہی اس کی ساری ضرورتیں پوری کرنی ہوتی ہیں. اب اگر اسے کل نئے کپڑے نا ملے تو وہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا اور عید پڑھنے نہیں جائے گا آپ پلیز مجھے کچھ ایڈوانس دیں دے باقی تنخواه جب مرضی دے دیجیےگا میں نہیں کہوں گی.
ارے... او کم ذات بس کر ابھی ہی تو پندرہ تاریخ کو تجھے میں نے دی تھی تنخواه اور آج اکیس ہے تو نے کدھر لگا دیے... تیرے کون سے خرچے ہیں؟؟ باجی گڈو کی فیس دی تھی اور گھر کے خرچے بھی تو ہیں.
اچھا اچھا رہنے دے، سب جانتی ہوں میں تم جیسوں کی چالاکیاں، ہمدردیاں لینے کے چکر میں بہانے بناتی رہتی ہو اور جاؤ اب اگلے مہینے ہی پیسے ملے گے، کوئی ایڈوانس نہیں نہ کوئی عیدی.
بی بی جی ایسے تو نہ کہے ہم غریب ضرور ہے اپنی محنت سے کماتے ہیں چاہے کم ہی کیوں نہ ہو لیکن چالاکیاں نہیں لگاتے.
یہ سب سن کر گڈو کی ماں رونے لگی اور  گڈو کو ساتھ لیے گھر کی طرف چل پڑی.
 امی جی یہ آپ نے کیا کیا ہے؟؟ رانی کو ڈانٹ دیا. اس کا دل دکھا ہو گا وہ بیچاری سارا سارا دن لوگوں کے گھر کام کرتی ہے اور ان کی بھی تو خواہشات ہوتی ہیں جیسے ہماری، ہمیں انکی پسند کا بھی خیال رکھنا چاہیے. 
کیونکہ اللّٰہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
"پڑوسی کے حقوق کا خيال رکھو اس کے بارے پوچھا جائے گا."
اس کے علاوہ یہ بھی تو فرماتے ہیں کہ:
"اللّٰہ اپنے حقوق تو معاف کر دے گا لیکن بندوں کے حقوق نہیں."
سعدیہ تو ساس کو یہ کہہ کر آگے چلی گئی لیکن سلمہٰ کو شاید سمجھ آ گئی تھی اور اگلے دن رانی کے گھر جانے کا بھی ارادہ کیا. 
*****
عید والے دن سلمہٰ صبح صبح اُٹھی اور کچھ کھانے کا سامان اور رانی اور اس کے بیٹے کے لیے کچھ چیزیں لیتی رانی کے گھر کی طرف چل پڑی. دروازے پر پہنچ کر دستک دی اور گڈو نے جیسے ہی دروازہ کھولا تو مارے حیرت کے منجمد ہو گیا ہو جیسے کہ سلمہٰ باجی وہی جس نے کل اس کی ماں کو ڈانٹا تھا ان کے گھر صبح  صبح آئی ہے. 
سلمہٰ نے پیار سے گڈو کے سر پر ہاتھ رکھا اور اسے کپڑے اور کھانے کی چیزیں پکڑائی اور کہا اب ہمارا گڈو بھی نئے کپڑے پہن کر عیدکی نماز پڑھنے جائے گا. اتنے میں رانی بھی گڈو کے پیچھے پوچھتی آئی کہ کون آیا ہے اتنی صبح؟؟ آگے سلمہٰ بی کو دیکھ کر حیران بھی ہوئی اور خوش بھی. 
آیے آیے باجی جی بیٹھے... سلمہ نے رانی سے کل کے روایے کی معافی مانگی رانی مجھے معاف کر دو مجھے پتا ہی نہیں چلا میں کل پتہ نہیں کیا کیا بول گئی تھی اور شاید پیسے کے گھمنڈ میں میں یہ بھی بھولا بیٹھی تھی کہ تم کتنی مشکلوں اور آزمائشوں سے گزر رہی ہو لیکن پھر بھی صبر کرتی ہو. رانی نے بھی معاف کر دیا سلمہ باجی نے رانی کو بھی سوٹ ديا اور رانی سے کہا:
"عید مبارک صنف آہن" 
یہ سب دیکھ کر رانی کی آنکھیں اشک بار ہو گئی اور چہرہ رب کے تشکر سے لبریز ہو گیا.

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں