مہوش اسد شیخ افسانچہ برائے مقابلہ
صنف آہن مقابلہ افسانچہ
عید مبارک صنف آہن
مہوش اسد شیخ
” باجی کپڑے تو آپ نے بہت پیارے سیئے ہیں۔ “
کلثوم باری باری تمام جوڑوں کو اپنے ساتھ لگا کر دیکھ رہی تھی۔
” اچھا باجی! میں نے افطاری کی تیاری بھی کرنی ہے، اب میں چلتی ہوں۔“
اس نے جلدی جلدی کپڑے لفافے میں ڈالے اور چادر سنبھالتی مرکزی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔
” بہنا پیسے تو دیتی جائیے۔“
رضیہ درزن نے پیچھے سے ہانک لگائی۔ کلثوم کے قدم ٹھٹھک گئے۔
” وہ باجی دراصل بات یہ ہے کہ عید کی شاپنگ میں ساری تنخواہ نکل گئی لیکن آپ فکر نہ کریں اگلے مہینے کی تنخواہ ملتے ہی سب سے پہلے آپ کے پیسے ہی ادا کروں گی۔“
اس نے مسکین صورت بنا کر کہا اور تیزی سے باہر نکل گئی۔ رضیہ خالی دروازے کو دیکھتی رہ گئی۔ اک یہی رقم تو اس کی امید کا سہارا تھی۔ اسے بھی اپنے یتیم بچوں کے لیے عید کی تیاری کرنی تھی اور عید کے روز گھر میں کچھ اچھا پکانا تھا۔
آنکھوں میں نمی اتر کر سامنے کا منظر دھندلا کر گئی اور اس دھند میں ماضی کا منظر روشن ہو گیا۔ شوہر کے ساتھ گزری عیدیں آنکھوں میں آن ٹھہریں۔ وہ بھی کتنے مان سے کتنے چاؤ سے چاند رات کو چوڑیاں پہنا کرتی تھی، مہندی سے ہاتھوں کو سجایا کرتی تھی۔ بچوں کے لیے ایک چھوڑ تین تین جوڑے بنا کرتے تھے۔
*********
” آپی روزہ کب کھلے گا؟ “
دس سالہ رافع کمرے سے نکل کر صحن میں بچھی چارپائی پر آ کر ڈھے گیا۔ آج گرمی کے باعث روزہ خاصا سخت تھا۔
” ایک گھنٹہ باقی ہیں۔“
کچے صحن میں پانی کا چھڑکاؤ کرتی منال نے اس کی طرف دیکھے بنا ہی جواب دیا۔
” ایک گھنٹہ رہ گیا اور آپ نے ابھی تک کوئی تیاری نہیں کی۔ امی کہاں ہیں؟ “
وہ اک جھٹکے سے سیدھا ہو بیٹھا۔
اس سے پہلے کہ منال کوئی جواب دیتی دروازے پر دستک ہونے لگی۔
” لگتا ہے امی آ گئی ہیں۔“
منال نے اسے آنکھ سے دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا۔
وہ تیزی سے اٹھ کر دروازے کی طرف لپکا اور جھٹ سے دروازہ کھول دیا۔
ماں کے ہاتھ میں کئی لفافے دیکھ کر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔
رضیہ نے اسے پرے ہٹاتے ہوئے اندر آنے کا راستہ بنایا ۔ سیدھا چارپائی کی طرف آئی، لفافے رکھ کر خود گرنے کے سے انداز میں بیٹھ گئی۔
” گرمی نے حشر کر ڈالا۔“
وہ چادر کے پلو سے ہوا لینے لگی۔
” یہ سب کہاں سے آیا۔ کل تک تو آپ کے پاس پیسے نہیں تھے۔ کیا آج کلثوم باجی سلائی کے پیسے دے کر گئی ہیں؟ “
رافع دروازہ بند کر کے ایک ہی نشست میں کئی سوال کرتا چارپائی کے قریب آ کھڑا ہوا۔
” نہیں! وہ بھی تڑخا کر چلی گئی تھیں، ایک پیسہ نہیں دے کر گئیں۔ “
جواب منال نے دیا۔
” یہ دیکھو! منال بیٹا سموسے لائی ہوں، تم دونوں کو بہت پسند ہیں نا! چلو وقت کم رہ گیا ہے جلدی جلدی افطاری کی تیاری کر لو۔ “
رضیہ نے اسے قریب آنے کا اشارہ کیا۔
” اور یہ دیکھو میں اپنے لاڈلے کے لیے کتنا پیارا کُرتا لائی ہوں، پہنے گا تو بالکل شہزادہ لگے گا۔“
اس نے ایک لفافے سے کُرتا نکال کر رافع کے سامنے لہرایا۔ اسی اثنا میں اس کے سر سے چادر ڈھلک گئی۔
” میں پوچھ رہا ہوں یہ سب آیا کہاں سے؟“
رافع کا لہجہ تلخ ہوا۔
جواب ندارد!
اگلے ہی لمحے اس کی نگاہ ماں کے بے رونق کانوں کی طرف اٹھ گئی۔ ابا کی آخری نشانی وہ چھوٹی چھوٹی بالیاں بھی غائب ہو چکی تھیں۔
دل اک لمحے کو دھڑکنا بھول گیا تھا۔ ماں کی کتنی کوشش تھی کہ یہ آخری نشانی اس کے ہاتھ سے نہ جائے، دن رات محنت کرتی تھی لیکن آج اپنے بچوں کو عید کی خوشیوں میں شامل کرنے، انھیں محرومی کا شکار ہونے سے بچانے کے لیے اپنی محبت کی آخری نشانی بھی بیچ آئی تھی۔ عورت جب ماں بنتی ہے تو صنف نازک تو ہر گز نہیں رہتی۔
اس کی آنکھوں کے گوشے بھیگنے لگے۔
” چاند رات مبارک صنف آہن!
عید مبارک صنف آہن!۔۔
وہ بلکتا ہوا ان کی آغوش میں اپنا چہرہ چھپا گیا۔
ختم شد
نام ظل ہما
جواب دیںحذف کریںمصنفہ نے اچھا لکھا مگر موضوع پرانا چنا۔اس موضوع پر بارھا لکھا جا رھا ہے۔مصنفہ کے لئے نیک خواہشات