حجاب فاطمہ افسانچہ برائے مقابلہ
ڈاکٹر بننا شروع سے اس کا خواب تھا اور یہ اس کے لٸے مشکل ثابت بھی نہیں ہوا وہ شروع سے ہی بہت ذہین تھی اور سکالرشپ ملنے کی وجہ سے اس کے ماں باپ پر کوٸی پڑھاٸی کا بوجھ بھی نہیں تھا۔ وہ ڈاکٹر بن کر اپنا خواب تو پورا کر چکی تھی مگر آگے زندگی اس کے لٸے آسان ثابت نہیں ہوٸی۔ وہ شادی کر کے ایک بڑے گھرانے میں گٸی تھی جہاں جواٸنٹ فیملی سسٹم تھا۔ عید سر پر تھی اس کی ناٸٹ شفٹس نے زندگی اس کے لٸے اور مشکل کر رکھی تھی۔ دن میں گھر کے کام کاج اور رات میں ڈیوٹی۔ آج چاند رات پر بھی وہ ڈیوٹی پر تھی مگر تھکن سے نڈھال۔ دن بھر وہ عید کی تیاری میں مصروف تھی۔ آخری روزے کے افطار کی تیاری،عید کی نماز کے لٸے کپڑے تیار کرنا ،گھر میں عید کی صبح کے لٸے میٹھا تیار کرنا،کھانے کاسامان تیار کرنا یہ سب کر کے وہ ڈیوٹی پر پہنچی تھی تا کہ جب وہ صبح گھر جاۓ تو اس کے کام کافی حد تک مکمل ہوں تا کہ وہ گھر والوں کے ساتھ عید اچھے سےگزار سکے اور ان کی عید بہتر بنا سکے۔ کسی بھی چیز میں اس کی طرف سے کمی نہ رہے مگر ان سب میں اس کو آرام کا وقت کہیں بھی میسر نہیں ہوا۔ اب رات کی ڈیوٹی اس کو مزید تھکا رہی تھی۔ ایسے میں جب صبح ہوٸی تو اس میں بالکل ہمت نہ تھی۔ تھکی ہاری گھر پہنچی تو سب نماز پڑھ کر گھر لوٹ رہے تھے سب کو میٹھے کے بعد ناشتہ دیا اور کچھ دیر آرام کرنے چلی گٸی۔ آنکھیں بند کیں تو اس کو وہ منظر یاد آیا کہ کیسےبچپن میں امی عید کے دن ان کو تیار کرتی تھیں اور وہ سب بہن بھاٸی امی سے اپنے پسندیدہ کھانوں کی فرماٸش کرتے تھے۔ پھر عید کے دن گھر پر مہمانوں کا آنا اچھا لگتا تھا مگر اس وجہ سے امی کا سارا دن کچن میں گزر جاتا۔ امی کو بھی عید کے دن بھی آرام نہیں ملتا تھا۔ مگر اس بات کا احساس کبھی تب نہیں ہوا تب تو عید کی خوشی میں مگن امی کی تھکن کا خیال کبھی نہیں آیا۔ اتنے میں ہی اس کی ساس کی آواز آتی ہے کہ بیٹا دوپہر کے کھانے کا انتظام کرو بیٹیاں اور داماد آ رہے ہیں۔ اور وہ بستر سے اٹھتے ہوۓ سوچتی ہے کہ ہر عورت کو اپنے گھر والوں کے تہوار بہتر بنانے کے لٸے اسی حد تک جانا پڑتا ہے۔ اپنا دل مار کر سب کے ساتھ ہنسنا ہوتا ہے۔ ہی سوچتے وہ کچن کی طرف چلی جاتی ہے اور کھانے کی تیاری میں مصروف ہو جاتی ہے کچھ دیر بعد اس کا شوہر کچن میں آتا ہے اپنی بیوی کو کام میں مصروف دیکھتا ہے اور اسکی آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں کیونکہ وہ جانتا تھا کہ یہ وہی لڑکی ہے جو شادی سے پہلے کچن میں پاؤں تک نہ رکھتی تھی اور آج اتنی تھکاوٹ کے باوجود اسکے گھر والوں کے لیے سب کے پسندیدہ کھانے بنا رہی ہے اسے احساس ہوا کہ سب عورت کو نازک اور کمزور کہتے ہیں لیکن درحقیقت عورت تو بہت بہادر ہوتی ہے اس لیے اسے "صنفِ آہن " کہنا چاہیے اور پھر اس نے اپنی بیوی کو " عید مبارک صنفِ آہن" کہہ کر نئے انداز میں عید کی مبارکباد دی۔
حجاب فاطمہ سلہری، لاہور
بہترین تحریر لکھی
جواب دیںحذف کریں