صبا اسلم افسانچہ برائے مقابلہ
عنوان: عید مبارک صنفِ آہن
ازقلم: صبااسلم
الفاظ:-871
او میڈم جی رکو!اندر کہاں جارہی ہو؟میں نے کہا رک جاٶ۔۔۔۔۔۔۔
پارس نے اپنے پیچھے آتے گارڈکی ایک نہ سنی اور آفس میں داخل ہوتے ہی بوس پر جا برسی۔
سر آپ میرے ساتھ۔۔۔۔ ایسا کیسے کر سکتے ہیں۔۔؟؟
میں نے اس جاب کےلیے انٹرویو دیا تو آپ نے مجھے خود سلیکٹ کیا تھا تو پھر آپ یہ جاب کسی اور کو کیسے دے سکتے ہیں۔۔۔۔پارس غصےمیں بولتی ہی جارہی تھی کہ تبھی بوس نے غصےمیں ہاتھ ٹیبل پر دےمارا۔
بکواس بند کرو۔۔۔یہ آفس ہےتمہارےباپ کاگھر نہیں،۔۔اور رہی بات جاب کی تومیں تم جیسے مڈل کلاس لوگوں کو جاب پر رکھناپسندنہیں کرتا۔۔۔۔۔۔اس لیے بہتر ہےکہ۔۔۔۔۔۔۔۔ گھرجاکر جھاڑو پونچا کرو۔۔یہی اوقات ہے تم لوگوں کی۔
میری اوقات کیا ہے۔۔۔؟ یہ تو وقت بتاۓگااور میری محنت اور کوشش تمہیں بتاۓگی کے تمہاری اوقات کیا ہے
پارس نے بینہ سوچے سمجھے اپنی بھڑاس نکال دی
جیس پر بوس نے غصے میں گارڑ کو بلایا
گارڑ ۔۔۔۔۔گارڑ اس پاگل لڑکی کو یہاں سے دھکے مار کر نکالو اور یاد رہے کہ آج کے بعد یہ یہاں پر نہیں آنی چاہیۓ
گارڑ پارس کو بازو سے کھینچ کر باہر لے گیا اور دھڑم سے فرش پر گیرا دیا
پارس کا خون کھول دہا تھا پر اس نے خود کو مشکل سے سھبالا اور چل پڑی
میں ہمت نہیں ہاروں گی یہ دنیا چاہے کچھ بھی کہے مگر مجھے اپنی رات کو دن میں بدلنا ہے ہر حال میں کچھ نا کچھ کرنا ہے۔۔۔۔پارس کمرے میں بیٹھے مسلسل یہی سوچ رہی تھی۔۔۔۔کہ فرخندہ بیگم کی آواز اس کی سماعتوں سے جاٹکراٸی۔
بیٹا کیا سوچ رہی ہو۔۔۔؟ یہی نا۔۔۔کہ تمہارے بابا کے جانے کے بعد گھر کے اخراجات بھی ہورے نہیں ہوتے۔۔۔۔لیکن تم فکر نہیں کرومیں خود کام کرلوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے پارس کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ اسے حوصلہ دیا۔۔جس پر پارس نے ماں کا ہاتھ پکڑا اور دھیرے سے بولی۔
نوکری نہیں ملی تو کیا ہوا۔۔۔آپ کسی کے گھر میں کام نہیں کر سکتی،۔۔۔اور ماں میں ناامید تھوڑی ہوں،۔۔۔میں تب تک کوشش کروں گی جب تک کے کامیاب نا ہو جاٶں۔۔۔۔۔پارس نے ماں کو یقین دلانا چاہا۔۔۔جس ہر ماں نے اس کی بات کاٹ دی۔
میری بچی تم کتنی بار کوشش کر چکی ہوکوٸی فاٸدہ نہیں ہوا،
تم نے دنیا کا کوٸی بھی کام نہیں چھوڑا کبھی فروٹ کی ریڑی لگاٸی کبھی ویٹر بنی اور کبھی درزی کیا کچھ نہیں کیا تم نے اپنے بہن بھاٸیوں کے لیے
پارس نے فوراًماں کے منہ پے ہاتھ رکھ دیا۔
ارے بس کرو اماں ابھی تو میں نے کچھ کیا ہی نہیں اور کیا اسے محنت کہتے ہیں۔۔۔۔؟یہ بھی کوٸی محنت ہے۔۔۔۔۔۔؟
تم کس قسم کی لڑکی ہو آٹھ سال تک محنت کرتی رہی اور مانتی ہی نہیں اب اس حقیقت کو بھی ماننے سے ان کار کردو کے تمہارےبھاٸی نے شادی ہوتے ہی ہمیں گھر سے باہر نکال دیا تھا نورس نے اسکی بات کو مزاق میں اڑا دیا
ہا۔۔ہا۔۔ہا بھاٸی نے ہمیں۔۔۔۔۔ گھر سے ہی تو نکالا تھا کون سا جنت سے نکال دیا اتنا دکھ تو ہمارے باپ آدم کو بھی نہیں ہو گا جتنا آپ منا رہی ہو
فرخندہ نے آٸستگی سے ہاتھ اس کے سر میں دے مارا
۔۔۔۔ارے پاگل کبھی تو سنجیدہ ہو جایا کر مشکلات نے ہمیں گھیر رکھا ہے اور تو ہے کے۔۔۔۔ ہر بات کا مزاق بنا دیتی ہے
پارس نے پھر سے فرخندہ کی بات کاٹ دی
ہاں اماں۔۔۔۔۔۔ اڑا دیتی ہوں میں مزاق میں تیرے ان دکھوں اور غموں کو کیونکہ میں مشکلات کے قدموں میں نیں گرا کرتی بلکہ مشکلات کو اپنے پیر کی جوتی سمجھتی ہوں
میں امید کو اپنی چادر میں لپیٹ کر اور آپ کی یہ جو دوست ہیں نہ مشکل اسے اپنے قدموں میں سمیٹ کر سوتی ہوں کیونکہ میری اس رات کے بعد کامیابی کا سورج طلوع ضرور ہوگا اور چھوٹے حوصلوں کو میں اپنی زندگی سے عاق کر چکی ہوں اور ناکامی روز بن بھلاے مہمان کی طرح آجاتی ہے اور میں روز اسے جگہ دیتی ہوں اور یاد رکھۓ گا اماں ایک دن کامیابی خود میرے قدم چومنے آۓ گی اور آپ سے کہے گی آنٹی آپ کی یہ جو بیٹی ہے نہ بڑی قابل ہے۔
دروازے پر دستک سے اس کا ماضی سے تعلق ٹوٹ گیا اور ایک دم سے ہوش میں آکر بولی
یس کمنگ
سیکٹری آفس میں آکر بولی۔
پارس میم۔۔۔۔۔ آپ کا سامان گاڑی میں رکھوا دیا ہے
جس پر پارس اسے مسکراتے ہوے بولی
گڈ اب ایسا کرو کے میرا سارا اکاٶنٹ خالی کر دو
وہ ۔۔۔۔۔کیوں میم ؟
سیکٹری نے فٹ سے پوچھا
بےوقوف نہیں پتا کل عید ہے۔۔۔ اس لیے میری طرف سے سٹاف کو عیدی دے دو اور ہاں اکاٶنٹ خالی کرنے کو کہا ہے تو اب خالی ہی مت کر دینا
پارس شریر انداز میں گویا ہوٸی
سیکٹری نے اس کا شکریہ ادا کیا اور چلی گٸی
اور رہی بات نورس کی تو وی آج بہت خوش تھی کیونکہ آج وہ اپنے گھر والوں کے ساتھ گومنے جارہی تھی مگر ہر عید پر گھومنے سے پہلے وہ اپنے ماضی کے ارد گرد ضرورگومتی اور اس کا ماضی ہر بار مسکراہٹ بن کر اس کے ہونٹوں پر پھیل جاتا اور وہ اسے دادِ تحسین پیش کرتی۔
املا کی اغلاط اور بعض جگہ پر تحریر میں ربط کی کمی لگی۔مصنفہ کے لئے نیک خواہشات
جواب دیںحذف کریں