فاطمہ خان افسانچہ برائے مقابلہ

( صنف نازک سے صنف آہن) از قلم فاطمہ خان 
  آفس کی کھڑکی سے باہر کی رونقیں دیکھ رہی تھی کسی نے سچ ہی کہا تھا جتنا بڑا شہر ہو اتنی بڑی تنہائی ہوتی ہے وہ ماضی کے پنوں کو الٹ پلٹ کر رہی تھی جہاں ایک اور ہی دنیا تھی گھر اس کے لاڈ اٹھانے والے ماں باپ فون کی گھنٹی نے تسلسل کو توڑا میڈم پاس *والے* گاؤں کے جاگیر دار صاحب آپ سے ملنا چاہتے ہیں 


 ٹھیک ہے آپ انھیں بھیج دیں تو کیا کہتے ہیں جاگیر دار صاحب آپ کو یہ ڈھیل منظور ہے جی بلکل اسی لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا ہوں وہ بہت خوش ہوئی اتنی خوش کے اس کے گالوں پر سے کہی آنسو نکل کر بے نام و نشان ہو گے وہ ایک بار پھر ماضی میں قدم رکھنے لگی جہاں اس کے بابا اس کی چھوٹی سی چھوٹی خواہش پوری کرتے تھے اور ماما اکثر اس بات پر ناراض ہو جاتی تھی کے آپ بچی کو بگاڑ رہے ہیں تب وہ مسکرا کر رباب کو سینے سے لگایا کرتے اور بولتے یہ بیٹی نہیں بیٹا ہے میرا رباب بہت ہونہار طلبہ تھی بہت اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کیا اب شہروز خان نے اس کا داخلہ شہر کے کالج میں کروا دیا رشتے دار اور خود زلیخا نے بھرپور مخالفت کی کے لڑکی کو پڑھانے کی کیا ضرورت ہے لیکن شہروز خان نے کسی کی نہیں سنی رباب سب سے زیادہ اپنے بابا کے قریب تھی وہ کالج میں داخلہ لینے سے بہت خوش تھی اور اس کی ایک دوست بھی بن گی تھی صبا وہ اس کی ہر بات اپنے بابا سے شیئر کرتی تھی وقت گزرنے لگا سکینڈ ائیر کے امتحانات قریب آ گئے اور وہ تیاری میں مصروف ہو گئ۔



 ایک دن اچانک سے اس کے بابا کار ایکسیڈنٹ کے حادثے میں زندگی کی بازی ہار گئے ان پر قیامت ٹوٹ پڑی سب اپنوں نے منہ پھیر لیا اب وہ دونوں ماں بیٹی بھری دنیا میں اکیلی رہ گئی وہ کسی ضرورت کے لیے بھی گھر سے باہر نکلتی تو محلے دار سو سو باتیں سناتے ایک مرتبہ وہ کالج سے آرہی تھی کے گاؤں کے جاگیر دار کے اوباش لڑکے نے اس کا راستہ روکنے کی کوشش کی اور رباب نے اس کے منہ پر زناٹے دار تھپڑ رسید کر دیا اس نے رباب سے انتقام لینے کا سوچا وہ ہر وقت گلی کے چند اوباش لڑکوں کے ہمراہ اس کے گھر کے باہر کھڑا رہتا اور آوازیں کستا تھا اب لوگوں کی زبانوں سے اور ہی باتیں سننے کو ملتی آخر کار گاؤں والوں نے دونوں ماں بیٹی کو گاؤں چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔


  جو اس کے ساتھ کھڑی تھی اس کی ماں گاؤں والا مکان بیچنا چاہتی تھی مگر رباب نے ایسا نہیں کرنے دیا اس نے پڑھائی کے ساتھ جاب شروع کر دی وہ اپنے بابا کے بعد اور اچانک رشتے داروں کے بےنقاب ہونے سے ٹوٹ چکی تھی لیکن وہ اب اپنی ماں کو دکھی نہیں کرنا چاہتی تھی اس نے ہمت نہیں ہاری اور اپنے بابا کے خواب کو پورا کرنے کے لیے دن رات ایک کر دیا پھر ایک دن سی ایس ایس کا امتحان نمایاں کامیابی سے پاس کرنے کے بعد ماں کو خوشخبری دینے کے لیے گھر پہنچی تو دیکھا کہ اس کی ماں بہوش پڑی ہیں انھیں بہت سخت ہاٹ اٹیک آیا تھا۔
 رباب کو ایک مرتبہ پھر اپنی دنیا ڈوبتی ہوئی نظر آنے لگی اللّٰہ اللّٰہ کر کے اس کی ماں کی طبیعت بہتر ہوئی اس نےکہا ماں میں نے آج بابا کے خواب کو پورا کر دیا وہ گھنٹوں ماما کے سینے سے لگ کر روتی رہی اس نے اپنے آبائی گاؤں میں ایک ہسپتال اور ایک لڑکیوں کے لئے کالج منظور کروا لیا ان بیس سالوں میں وہ کہی مرتبہ اس گاؤں میں گی تھی لوگوں کی نفرت بھری نظروں میں کبھی کوئی بدلاؤ نہیں آیا اور آج لوگوں کی انہی نظروں نے اسے اس کابل بنا دیا کہ لوگ اسے دیکھنے کے لیے سر کو اوپر اٹھانے لگے۔



وہ کچھ ضروری کاغذات دیکھ رہی تھی جب صبا اس کے پاس آئی وہ ایک ہائی سکول کی ہیڈ تھی
ارے صبا تم یہاں وٹ آ پلیزینٹ سرپرائز بیٹھو ہاں دو کافی بھیج دیں دراصل سکول میں ایوارڈز ڈسٹریبیوشن کی تقریب ہے تو سوچا مہمان خصوصی کو میں بذات خود دعوت دوں اور گاؤں کے لوگوں کو ان کے ویلویشر سے ملوا دوں 
کیوں نہیں جناب آپ بلائیں اور ہم نہ آئیں ۔۔
اس نے گاڑی روکی اور باہر نکل کر کافی باریک بینی سے جائزہ لیا آنکھوں سے آنسوں صاف کرتے ہوئے وہ چند قدم چلنے کے بعد دوبار سے گاڑی کی طرف پلٹی اور چشمہ اٹھا کر پہن لیا ۔



تقریب کے اختتام پذیر لمحات میں گاؤں کے جاگیر دار نے کہا ہمارے معاشرے میں عورت کو بہت کمزور سمجھا جاتا ہے بوجھ سمجھتے ہیں لیکن میں آج آپ سب کو یہ بات بڑے فخر سے بتانا چاہوں گا کہ آج کی عورت کمزور نہیں ہے اس بات کی جیتی جاگتی مثال ہمارے سامنے ہے یہ میری بیٹی اس گاؤں کی بیٹی رباب بنت شہروز خان ہے یہ کہتے ہوئے انہوں نے رباب کے سر پر بوسہ دیا اور کہا کہ اس نے ثابت کر دیا کے عورت کمزور نہیں میں گاؤں کے لوگوں سے درخواست کروں گا کہ وہ اپنی بچیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائیں کیونکہ آج کی عورت صنف آئن ہے پورا ہال تالیوں سے گونج اٹھا ایسے لگ رہا تھا جیسے شہروز خان کہیں دور کھڑے مسکرا رہے ہوں ۔
جاگیر دار نے کہا تین دن بعد عید ہے اس لیے میری طرف سے صنف آہن کو عید مبارک
یہ سن کر رباب جلدی سے گاڑی میں بیٹھ کر اگلے سفر کی طرف چل پڑی عید میں وقت بہت کم تھا اور اس نے یتیم بچوں کے لیے کپڑے اور گفٹس بھی لینے تھے۔

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں