منظم حیات افسانچہ برائے مقابلہ


 ماہ روش 
منظم حیات 
پاکپتن 
الفاظ کی تعداد: 999


کبھی درد مند پھول دیکھا ہے؟ جو صرف خوشبو بانٹتا ہے۔ جو اپنے ساتھ لگے کانٹے اس ڈر سے اکھاڑ پھینکتا ہے کہ کہیں کسی کو چبھن کا احساس نہ ہو۔ 
وہ ایسی ہی تھی۔ ایک درد مند پھول کی طرح، جو اپنی ساری زندگی دوسروں کی نذر کر دیتے ہیں۔ مگر وہ کوئی سرخ پھول نہیں تھی۔ وہ سیاہ پھول تھی۔ ہاں، اس پھول کی ساری سرخی وقت کی سفاکی میں بہہ چکی تھی۔ مگر وہ پھر بھی خوشبو کی طرح مہکتی رہی۔ کیوں کہ ماہ روش عالم ایک ماں تھی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔ 
ماہ روش عالم ایک جاگیردار باپ کی اکلوتی بیٹی تھی۔ عالم خان شہر کے جانے مانے رئیس تھے۔ بیٹی کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ ہر خواہیش زبان پر آنے سے پہلے پوری کر دیتے۔ اس قدر لاڈ پیار نے بھی کبھی ماہ روش عالم کو بگڑنے نہیں دیا۔ ماہ روش کی والدہ نے اپنی بیٹی کی تربیت دین کے مطابق کی۔ اسے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنا سکھایا۔ اور اس طرح وہ ایک درد مند پھول بن گئی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔ 
والدین اپنی اولاد کو دنیا کی ہر آسائش دے لیں۔ مگر ان کا نصیب نہیں لکھ سکتے۔ ماہ روش نے والدین کے گھر جتنی آسائشیں میسر تھی۔ وہ اسے سسرال میں میسر نہ آ سکیں۔ جب وہ خیام حسین کے ساتھ بیاہی گئی تھی تو حالات اس قدر برے نہیں تھے۔ پھر وقت نے پلٹا کھایا اور سب کچھ ختم ہوگیا۔ خیام کی نوکری ختم ہوئی اور وہ لوگ غربت کی چکی میں پسنے لگے۔ ماہ روش اپنے والدین کی کوئی مالی مدد قبول نہیں کر سکتی تھی۔ کیوں کہ خیام کی خودداری اسے اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی۔ وہ اپنے شوہر کی کم کمائی میں صبر سے گزر بسر کرنے لگی۔ اور زندگی کے دن یوں ہی گزرتے گئے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔ 
مرحا بیٹے آپ یہاں اکیلے کیوں بیٹھے ہو؟ 
ویسے ہی ماما جان! مرحا نے جواب دیا۔ 
کیا سوچ رہی ہے میری بیٹی؟ اس کے اداس چہرے کو دیکھتے ہوئے ماہ روش نے سوال کیا۔ 
کچھ نہیں ماما، آج میں دانیہ کے گھر گئی تھی نا جب شام کو تو اس نے مجھے اپنی عید کی چیزیں دکھائیں۔ بہت پیارے فراک اور جوتے، چوڑیاں وغیرہ۔ وہ کہہ رہی تھی، وہ میری چیزیں دیکھنے بھی آئے گی۔ مگر میں نے تو ابھی تک کچھ بھی نہیں لیا ماما۔ 
میں صبح ہی اپنی گڑیا کا فراک سلائی کروں گی۔ اور جوتا بھی خرید کر دوں گی۔ ماہ روش نے پر سوچ انداز میں مرحا کو تسلی دی۔ 
مگر ماما میں جانتی ہوں۔ ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں۔ 
ارے آپ کو کس نے کہہ دیا ایسا؟ 
مجھے معلوم ہے ماما۔ کل احمد بھائی جب ضد کر رہے تھے کہ انہیں بھی اپنے دوستوں کی طرح عید کے لیے اچھے کپڑے بنانے ہیں۔ تب آپ نے کہا تھا کہ بیٹا ایسے ضد نہیں کرتے اور اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاتے ہیں۔ 
ماہ روش خاموش ہوگئی۔ 
۔۔۔۔۔۔ 
ایک کپ چائے پلا دیں ماہ روش۔ آج تو کافی تھک گیا ہوں۔ خیام نماز پڑھ کر آئے اور کمرے میں داخل ہوتے ماہ روش سے کہا۔ مگر کوئی جواب نہ پاکر اس کی جانب متوجہ ہوئے۔ 
کیا بات ہے ماروش؟ اس قدر رنجیدہ کیوں لگ رہی ہیں؟ 
پوچھنے پر ماہ روش نے بچوں کی تمام باتیں بتا دیں۔ 
اس بار کام کم ہونے کی وجہ سے تمہیں بچوں کی خریداری کے پیسے نہیں دے سکا۔ مگر میں کوشش کروں گا کچھ بندوبست کر دوں۔ تم پریشان مت ہو۔ 
خیام اگر آپ اجازت دیں تو میں امی سے کچھ پیسے لے لوں۔ 
ہرگز نہیں ماہ روش۔ تم اور بچے میری ذمہ داری ہو۔ مجھے یہ گوارا نہیں کہ کسی سے کچھ مانگوں۔ 
آپ مجھے بھی تو نوکری نہیں کرنے دیتے۔ مل بانٹ کر گھر چلا لیتے۔ مجھ سے بچوں کی اداسی نہیں دیکھی جاتی۔ اس نے آنکھوں میں آئے آنسو صاف کیے۔ خیام حسین بھی اداس اور خاموش ہو گئے۔ 
۔۔۔۔۔۔۔ 
مرحا بیٹا آپ کی ماما کہاں ہیں؟ 
اندر ہیں، آپ بیٹھے میں بلاتی ہوں۔ 
السلام علیکم! خالہ کیسی ہیں۔ ماہ روش نے حلیمہ خالہ کو دیکھتے محبت سے سلام کیا۔ ان سے پرانی واقفیت تھی۔ کیوں کہ خالہ ماہ روش کی ساس کی بہترین دوست تھی۔ 
وعلیکم السلام! بیٹا ٹھیک ہوں۔ مجھے تم سے ایک کام ہے بچے، یہ کچھ سوٹ ہیں۔ جو سلائی کروانے ہیں۔ درزیوں پر تمہیں پتا ہے مجھے بالکل بھروسہ نہیں۔ تمہارا خیال ذہن میں آیا جب، کہ تمہیں سلائی آتی ہے۔ تو چلی آئی۔ دن ہی کتنے رہ گئے ہیں عید میں۔ پھر درزیوں کے بھی سو نکھرے ہوتے ہیں۔ بیٹا اچھے سے سلائی کرنا۔ 
جی خالہ، آپ پریشان نہ ہوں۔ میں سب کردوں گی۔ ماہ روش نے انہیں تسلی دی۔ 
۔۔۔۔۔۔۔ 
ماہ روش نے دن رات ایک کر کے بہت محنت سے کپڑے سلائی کیے۔ عید میں صرف پانچ دن رہ گئے تھے جب خالہ  کی دوبارہ آمد ہوئی۔ 
میں آپ کو ہی یاد کر رہی تھی خالہ۔ کپڑے سلائی ہو گئے ہیں۔ 
ماشاءاللّٰه تم نے تو کمال کردیا میری بچی۔ انہوں نے اس کے ہاتھ میں کچھ دیتے ہوئے کہا۔ یہ تمہاری محنت پر میری طرف سے۔۔۔۔ 
مگر خالہ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ 
یہ تمہارا حق ہے بیٹا۔ خوش رہو، جیتی رہو۔ 
۔۔۔۔۔۔ 
ماہ روش کی محنت اور دعائیں رائیگاں نہیں گئیں۔ اس نے پیسے گنے۔ وہ دس ہزار ساتھ سوٹوں کی سلائی کے بدل میں ملنے والی رقم تھی۔ آج وہ بہت خوش تھی۔ اب وہ بچوں کے لیے خریداری کر سکتی تھی۔ 
ماہ روش نے خیام کو بتایا۔ تو وہ اس کے صبر اور محنت کو سراہے بغیر نہ رہ سکا۔ جس نے ساری زندگی صبر اور قناعت میں گزار دی۔ اور اب اپنے بچوں کی خاطر محنت کر رہی تھی۔ اس نے باقاعدہ سلائی کرنا شروع کردی۔ 
۔۔۔۔۔ 
وہ بچوں کے ساتھ شاپنگ کر کے واپس آئی۔ تو بچے خوشی خوشی باپ کو اپنی خریداری دکھانے لگے۔ تنیوں نے مل کر ماہ روش کو دیکھا۔ عید میں ایک دن رہ گیا تھا۔ ماہ روش انہیں مسکراتا دیکھ کر اطمینان سے مسکرا دی۔ تینوں نے مل کر ماہ روش کو عید کی مبارک باد دیتے ہوئے بیک وقت کہا۔ 
عید مبارک صنف آہن۔

تبصرے