ہانیہ ارمیا افسانچہ برائے مقابلہ


 افسانچہ 
عید مبارک صنف آہن 
قلم کار: ہانیہ ارمیا 
الفاظ: 967

مارچ کے آغاز سے شاکرہ اس سوچ میں غرق تھی کہ رمضان سر پہ ہے اور بچے نوعمر۔ عام دنوں میں تو سادہ کھانا کھا لیتے ہیں مگر روزہ رکھنے کے بعد خواہش کرتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ تو معمول سے ہٹ کر کھانے کو ملے۔ وہ ایک سرکاری اسکول میں کلاس دوئم کی استانی تھی مگر تین ماہ سے تنخواہ کا دور دور تک کوئی پتہ نہ تھا۔ شوہر دو سال پہلے فوت ہوچکا تھا۔ دو بیٹوں کی پرورش اور گھر کی تمام تر ذمے داری اب اس پہ تھی۔
دو ماہ تو جیسے تیسے گزر گئے مگر اب تو جمع پونجی بھی سکوں کی صورت میں منہ چڑھا رہی تھی۔ وہ کبھی کچن کے خالی ڈبے دیکھتی تو کبھی بیٹوں کے معصوم چہرے۔ عزت نفس ہاتھ پھیلانے نہ دیتی تھی اور سفید پوشی کی چادر کو وہ کبھی سر پہ ڈال لیتی تو کبھی پاؤں ڈھک لیتی۔ تمام رات جاگتی اور صبح ہوتے بیٹوں کو لے کر اسکول چلی جاتی۔

"میڈم کیا میں اندر آ جاؤں؟" پرنسپل کے کمرے کے دروازے کے پاس کھڑے ہو کر شاکرہ سے سوال کیا۔

"ہاں جی تشریف لے آئیں مس۔"

"میڈم آپ مصروف تو نہیں۔" 
 
"نہیں نہیں، شاکرہ بولو۔" (پرنسپل نے نرمی سے کہا)وہ شاکرہ کے حالات جانتی تھی اور یہ بھی پتہ تھا شوہر کے انتقال کے بعد تنخواہ نہ ملنے سے اس کے گھر کی مالی حالت کیسی ہے۔

"میڈم تنخواہ کے متعلق کچھ خبر مل سکتی ہے؟" شاکرہ نے دھیمے لہجے میں استفسار کیا۔

"شاکرہ یقین کرو میں کئی بار ملازمین کی تنخواہوں کی سفارش لکھ کر ایجوکیشن آفس بجھوا چکی ہوں مگر آگے سے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ملازمین اسکول سے غیر حاضر ہو کے پرائیویٹ اداروں کی طرف بھاگ رہے ہیں اگر آپ چاہو تو چھٹیاں لے کر کسی پرائیویٹ ادارے میں نوکری کر سکتی ہیں۔"

"نہیں میڈم! میں یہ اسکول نہیں چھوڑ سکتی، میرے بچے یہاں پڑھتے ہیں۔ پرائیویٹ تعلیمی ادارے کی فیس میری پہنچ میں نہیں۔ آپ بس ایک مہربانی کریں مجھے دوپہر کے وقت کسی گھر میں ملازمہ کا کام دلوا دیں۔ آپ اچھے گھر سے ہیں آپ کے تعلقات بھی ایسے لوگوں سے ہوں گے جو ملازمہ رکھتے ہیں۔"

"شاکرہ ایک بی اے، بی ایڈ پاس اسکول استانی گھر کی ملازمہ کے طور پہ کام کر لے گی؟" پرنسپل حیرانی سے بولی۔

"کر لوں گی میڈم، تعلیم یافتہ اسکول استانی دو بچوں کی ماں بھی ہے۔ تعلیم سے زیادہ مامتا میں طاقت ہوتی ہے۔ ماں اگر بھوکے بچے کو اپنا گوشت کاٹ کر بھی کھلا دے تو اسے تکلیف نہیں ہوتی بلکہ وہ اس بات سے خوش ہوتی ہے کہ میرے بچے کی بھوک مٹ گئی، اس کا پیٹ بھر گیا۔ آپ بس اپنے حلقے میں پتہ کروا دیں۔

"ملازمت تو ہے۔ میری دیورانی کو کھانا بنانے کے لیے ایک خاتون کی ضرورت ہے۔ مگر اسے ملازمہ صبح سے رات تک کے لیے چاہیے، میں اس سے آپ کے لیے وقت کی مہلت مانگ لوں گی آپ اسکول کے بعد اس کے گھر چلی جایا کرنا۔"

"میڈم میرے بچے چھوٹے ہیں، اکیلے نہیں رہ سکتے۔"

"ہاں ہاں! میں بچوں کی بھی بات کر لوں گی، وہ بچوں کے آرام کے لیے گھر میں کوئی محفوظ جگہ فراہم کر دے گی، جہاں بچے اسکول کے بعد کچھ دیر سستا سکیں مگر آپ کو اسکول کے فوراً بعد وہاں جانا ہوگا اور رات کے کھانے کے بعد تمام کام سیمٹ کر آنا ہو گا، کر سکتی ہیں تو میں ابھی بات کر لیتی ہوں۔"
 
"جی جی میڈم، آپ میں کر لوں گی۔"

"ٹھیک ہے! آپ کلاس میں جائیں چھٹی کے وقت مجھ سے آ کر ملیں۔"
 
پرنسپل نے بات کرنے کے بعد شاکرہ کو نوکری ملنے کی نوید سنا دی۔ چھٹی کے بعد شاکرہ بچوں کو لے کر میڈم کے ساتھ نئی ملازمت کے لیے چل پڑی۔ 
نئی مالکن شیبہ بھی اسکول پرنسپل کی طرح ایک نیک دل خاتون تھی۔ اس نے شاکرہ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے اسے دیر سے آنے اور بچوں کو ساتھ رکھنے کی اجازت دے دی۔ اس رات کئی دنوں بعد شاکرہ کو سکون کی نیند آئی۔ بےشک محنت زیادہ تھی مگر وہ خوش تھی کہ اب اس کے بچے پیٹ بھر کھانا کھا سکیں گے ایک ماں کا سکون اس کی  اولاد کی خوشی سے وابستہ ہوتا ہے۔ وہ روز معمول کے مطابق بچوں کو لے کر پہلے اسکول جاتی، چھٹی کے فوراً بعد وہ شیبہ میڈم کے گھر آجاتی۔ رمضان سے دو دن پہلے شیبہ میڈم نے اسے تنخواہ کے ساتھ گھر کا راشن خرید کر دیا، شاکرہ کو یوں لگا محنت وصول ہو گئی۔ اس کے بعد وہ زیادہ محنت اور شوق سے میڈم شیبہ کی خدمت کرنے لگی کیونکہ وہ چاہتی تھی کہ حق حلال کا رزق اپنے بچوں کو کھلائے نہ کہ خیرات اور ہمدردی کا۔ اب تو وہ رمضان کی سحری بنا کر گھر واپس آتی۔ اسکول پرنسپل کی طرح میڈم شبیہ بھی اس کی لگن اور حوصلے کی معترف تھی۔ تمام رمضان شاکرہ کی محنت کو دیکھتے ہوئے شیبہ نے چاند رات کو شاکرہ اور اس کے دونوں بیٹوں کو گاڑی میں اپنے ساتھ لے جا کر عید کی شاپنگ کروائی۔ اور اسے واپس گھر کے دروازے پہ چھوڑتے پہ گلے لگا کر مسکراتے ہوئے کہا، "شاکرہ تم نے تمام رمضان بہت محنت اور لگن سے میرے خاندان کے لیے سحری اور افطاری بنائی، خدا تمھیں اس کا اجر دے گا۔ تم نے روزے کی حالت میں اسکول اور میرے گھر کی ملازمت جی جان سے کی، اس غرض سے کہ تمھارے بچے کسی نعمت سے محروم نہ رہیں۔ تمھاری محنت اور محبت اللہ رب العزت اپنی بارگاہ میں قبول فرمائیں۔ میری طرف سے اس خدمت کا چھوٹا سا نذرانہ تمھارے بچوں کے لیے عید کے تحائف ہیں۔ تم ایک باہمت اور عزت نفس کو عزیز رکھنے والی خاتون ہو، عیدی کو خیرات نہیں بلکہ تحفہ سمجھنا۔ خدا تمھیں مزید ہمت اور حوصلہ عطا کریں۔عید مبارک صنف آہن۔"

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں