آمنہ جعفر افسانچہ برائے مقابلہ


 گڈو اور پپو دروازے میں بیٹھے اپنے باپ کی راہ تک رہے تھے اور ساتھ ہی آنے جانے والوں کے ہاتھوں میں پکڑے لفافوں میں موجود کھانے کے سامان کو بھی دیکھ رہے تھے کیونکہ افطار کا وقت قریب تھا لیکن راشد ابھی تک افطار کا سامان لے کر گھر نہیں پہنچا تھا۔ ماں اندر سے اپنے بچوں کو آوازیں دے رہی تھی۔

" اندر آ جاؤ بچوں افطار کا وقت ہے اللہ کے حضور دعا کرو۔"

 آخر کار بچے بھی تھک کر اندر چلے گۓ۔

ماں کیا روز کی طرح آج بھی ہم روزہ پانی سے افطار کریں گے۔ گڈو بولا۔ 

اتنے میں دروازے پہ دستک ہوئی گڈو نے دوڑ کر دروازہ کھولا اور کیا دیکھتا ہے کہ روز کی طرح باپ خالی ہاتھ گھر آیا ہے۔گڈو خاموشی سے اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔

آج بھی کام نہیں ملا کیا؟ رضیہ نے راشد سے پوچھا 

نہیں اور میری جیب میں جتنے پیسے تھے انکی بس یہ کجھوریں لا پایا ہوں۔ راشد نے جیب سے چار کجھوریں نکال کر رضیہ کو دیں۔

کوئ بات نہیں ہم پانی اور کجھور سے ہی روزہ افطار کر لیں گے رضیہ نے سب کر ایک ایک کجھور دی اور روزہ افطار کیا۔

وقت گزرتا گیا لیکن انکے حالات مزید بدتر ہو گۓ نوبت فاقوں تک پہنچ گئی۔

فاقوں سے پریشان ہو کر، گھر کے حالات اور اپنے بچوں کی عید بہتر بنانے کے لیے رضیہ نے لوگوں کے گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا۔ وہ جو کچھ کماتی اور جو پیسے راشد لاتا اُس سے گھر کا خرچ چلاتی اور کچھ پیسے بچا کے رکھتی تاکہ مشکل وقت میں کام آ سکے۔ ساتھ کی ساتھ اپنے بچوں کو مشکل وقت میں صبر کرنے اور حالات کا مقابلہ صبرو استقامت سے کرنے کی تلقین دیتی۔ 

راشد کو ایک اچھی جگہ نوکری مل گئی اور اس کی تنخواہ اتنی تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کے لیے عید کی خوشیاں خرید سکتا تھا راشد نے سب کو یہ خوشخبری سنائی تو وہ بہت خوش ہوۓ کہ وہ بھی سب کی طرح عید منائیں گۓ نئے کپڑے اور جوتے پہنے گۓ۔

لیکن کون جانتا تھا کہ انکی یہ خوشیاں چند لمحوں کی ہیں ابھی عید میں کچھ دن باقی تھے سب ٹھیک چل رہا تھا ایک شام راشد کام سے گھر آیا تھکاوٹ کی وجہ سے اسکی طبیعت ٹھیک نہیں تھی وہ کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے لیٹ گیا کہ اچانک اسے سینے میں شدید درد اٹھا درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ اٹھ نہیں پا رہا تھا اور نا ہی کچھ بول پا رہا تھا اچانک کمرے میں پپو آیا اپنے باپ کی حالت دیکھ کر گھبرا گیا فوراً ماں کو بُلا لایا سب اسے لے کر ہسپتال پہنچ گۓ۔ 

ڈاکٹرز نے معائنہ کرنے کے بعد بتایا کی راشد کو دل کا دورہ پڑا ہے لیکن بروقت ہسپتال پہنچنے پر اسکی حالت زیادہ نہیں بگڑی اب وہ خطرے سے باہر ہے۔

رضیہ بہت پریشان تھی کیونکہ عید سر پہ تھی اور راشد کی یہ حالت، راشد اپنی بیماری کی وجہ سے کام پر بھی نا جا سکتا تھا وہ ہر وقت یہی سوچتا رہتا تھا کہ اب بچوں کو عید کے کپڑے کیسے دلاۓ گا۔

رضیہ نے اپنے بچوں کی خوشیوں کی خاطر اور بھی گھروں میں کام کرنا شروع کر دیا کیونکہ وہ اپنے گھر میں عید کی خوشیاں لانا چاہتی تھی رضیہ نے بہت محنت سے کام کیا اور صبر کا دامن تھامے رکھا وہ جانتی تھی کہ اگر وہ کمزور پڑ گئ تو سب کی ہمت ٹوٹ جاۓ گی اور وہ یہ ہر گز نہیں ہونا دینا چاہتی تھی۔

عید میں چند روز باقی تھے رضیہ اسی جستجو میں تھی کہ اپنے بچوں کی عید بہتر بنا سکے۔ رضیہ کو کام کرنے پر جو پیسے ملے وہ اتنے ہی تھے کہ وہ راشد کی دوائیاں لے سکتی تھی اس نے راشد کی دوائیاں خرید لیں کیونکہ دوائیاں کپڑوں سے زیادہ ضروری تھیں۔

بچے نئے کپڑوں کے لیے گھر میں رضیہ کی راہ دیکھ رہے تھے۔ رضیہ پریشانی کے عالم میں گھر آئ کہ بچوں کو کیا جواب دے گی وہ گھر آئ اور بچوں کو بھلا پھسلا کر سُلا دیا وہ اداسی میں ڈوبی گھر کی صاف صفائی کر رہی تھی تو اسے ایک پرانی کپڑے کی تھیلی ملی رضیہ نے اسے کھولا اور کپڑے میں موجود چیز کو دیکھ کر وہ بہت خوش ہوئ کیونکہ اس تھیلی میں رضیہ کی بچت کے پیسے رکھے ہوۓ تھے جو وہ بھول چکی تھی لیکن اب اس کی خوشی کا کوئ ٹھکانہ نا تھا اب وہ اپنے بچوں کے لیے عید کے کپڑے خرید سکتی تھی اور سب کی عید کو خوشیوں سے بھری ہوئ بنا سکتی تھی۔

رضیہ نے اپنے صبر اور ہمت و حوصلہ سے مشکل حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اپنے بچوں کو بھی سکھایا کہ کس طرح ہمت و حوصلہ سے مشکل وقت میں بھی صبر کرنا چاہیے اور اس نے سب کی عید کو خوشیوں سے بھر دیا۔ 

راشد رضیہ کے ہمت و حوصلہ اور صبر سے بہت خوش ہوا کہ اس نے مشکل حالات میں راشد کا ساتھ دیا راشد نے اپنے بچوں کو بتایا کہ معاشرے میں عورت کو صنفِ نازک کہا جاتا ہے کہ وہ نازک سی ہوتی ہے مشکل حالات میں ڈر جانے والی لیکن درحقیقت اصل ہمت و حوصلے والی تو عورت ہی ہوتی ہے جو مشکل حالات میں صبر سے کام لیتی ہے اور سب گھر والوں کی ہمت کو بھی بڑھاتی ہے اور اس لیے ہمیں عورت کو صنفِ نازک نہیں بلکہ صنفِ آہن کہنا چاہیے۔ گڈو اور پپو راشد کی بات اور اپنی ماں کی عظیم قربانی کو سمجھ گئے اور سب نے رضیہ کو ایک نئے انداز میں عید مبارک کہا " عید مبارک صنفِ آہن۔" 


آمنہ جعفر،لاہور

تبصرے

  1. ظل ہما لاھور
    مصنفہ نے اچھا لکھا لیکن موضوع عام چنا اور برتا بھی عام طریقے سے۔غربت اور عورت کی جدو جہد پر بارہا لکھا جا چکا ہے۔مصنفہ کے لئے نیک خواہشات

    جواب دیںحذف کریں
  2. ما شاءاللہ ۔بہترین تحریر

    جواب دیںحذف کریں

ایک تبصرہ شائع کریں