نمرہ امین افسانچہ برائے مقابلہ

 
رائیٹر، نمرہ امین، لاہور

مقابلہ۔افسانچہ "عید مبارک صنف آہن"
الفاظ کی تعداد۔ 555

 آج بھی ساری رات اُس کو نیند نہیں آئی اُس کے کانوں میں بار بار اپنے بیٹے کی آواز آرہی تھی، جو کہہ رہا تھا کہ امی کیا اِس بار بھی ہم عید پر نئے کپڑے نہیں لیں گے، اچھے کپڑے نہیں پہنے گے، اچھا کھانا نہیں کھائیں گے، یہی باتیں سوچ سوچ کر وہ پریشان ہو رہی تھی اور اُس کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ اُس نے ارادہ کیا کہ وہ خود اب بہت محنت مزدوری کر کے اپنے گھر کے حالات کو بہتر کرے گی، سب کو اچھے کپڑے لے کر دے گی، اور اُن کے گھر بھی کھانا بن سکے گا۔صبح جب وہ کام ڈھونڈنے گئی اُس کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، سب نے اُس کو باتیں کی، بُرا بھلا کہا، کسی نے کوئی کام نہیں دیا، تم عورت ہو کیسے کام کرو گی، تم سے محنت ہوگی ہی نہیں، وہ آج پھر یہ سب باتیں سُن کے تھک ہار کر گھر واپس آگئ، امی آج بھی آپ کھانا لے کر نہیں آئی ہمیں بھوک لگ رہی ہے، اِس آواز نے اُس کو ایک بار پھر سے چونکا دیا وہ تڑپ اُٹھی اور پھر گھر سے باہر نکل گئی کام کی تلاش میں  کبھی وہ کسی کے جوتے صاف کرتی، کبھی  کہیں جھاڑو دیتی، تب بھی اُس کو اتنے پیسے نہیں ملتے اور لوگ اُس کو باتیں کر کے دھکے دے کر چلے جاتے، ہر بار وہ بہت صبر کرتی کہ کہیں ضرور اچھا کام ملے گا، وہ محنت مزدوری کر کے اپنا گھر چلائے گی، دن رات وہ سڑک پر کام کر کے دھکے کھاتی کہ کوئی روٹی وہ اپنے بچوں کو لا کر کِھلا سکے، اُس کی انتھک محنت اور کوششوں کا یہ صلہ ملا  کہ اب کے بار وہ ایک گھر میں گئی، باجی آپ کو کام کے لیے کوئی چاہیئے تو مجھے رکھ لیں، میں آپ کا سب کام کر دوں گی. وہ گھر کا سارا کام دن رات محنت کر کے کر رہی کہ وہ اپنے بچوں کو کھانا بنا کر دے سکے، اُن کو کپڑے لا کر دے سکے، گھر کی صاف صفائی سے لے کر بازار کا سامان تک لے کر آتی دُور دُور تک پیدل چل کے جاتی سامان لینے، اُس کے پاؤں میں چھالے پڑ گئے، اُس سے چلا نہیں جاتا  تھا پھر بھی وہ کام کر رہی تھی دن رات صرف اپنے گھر کے حالات ٹھیک کرنے کے لیے تاکہ سب کو کھانا دے سکے۔ آخر اُس کی محنت کا صلہ اُس کو مل ہی گیا اور اُس کے کام کی ہزاروں میں تنخواہ ملی، جس پر اُس کی خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا، اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور اُس نے اپنے رب کا شُکر ادا کیا، وہ پیسوں سے اپنے سب گھر والوں کے لیے کپڑے، جوتے، اور کھانا لے کر گئی۔ جیسے ہی وہ گھر پہنچی اُس نے خوشی سے سب کو آواز دی اور کہا، "عید مبارک" سب اُس کی طرف آئے اور بہت خوشی سے اُس کے گلے لگ گئے، پھر سب تیار ہوئے سب نے کھانا ساتھ مل کر کھایا، اور سب نے سوچا کہ اُن کو اپنی امی کی محنت، صبر، اور اتنی مشکلات سے لڑنے کے بعد  یہ سب حاصل ہوا ہے، اس پر سب نے اُن کا شکریہ بھی کیا، اللہ کا شُکر ادا بھی کیا اور ایک بار پھر سب نے مل کر کہا " عید مبارک صنف آہن"
 

تبصرے