ثناء سحر افسانچہ برائے مقابلہ
عنوان : عید مبارک صنف آہن
نام : ثناء سحر(اوچشریف)
الفاظ کی تعداد: 1000
جیسے جیسے رمضان گزرتا جارہا تھا شازمہ کی پریشانی بھی بڑھتی جارہی تھی۔ گھر کا راشن' عید کی تیاریاں گھریلو اخراجات نے اس نو عمر لڑکی کے لیے کئی مسائل پیدا کیے ہوئے تھے۔
آپی' آپی ۔۔۔
نمرہ شازمہ کا کندھا ہلاتی ہے
شازمہ کسی سوچ میں ڈوبی ارد گرد سے انجان تھی۔
آپی یار کدھر گم ہے آپ ۔۔؟
میری پیاری آپی سنیں ناں ۔۔۔۔
شازمہ کو گلے لگاتے نمرہ نے فرمائشیں شروع کردی۔۔
مجھے عید والے دن میری دوست کے جیسے کپڑے اور جوتے لینے ہیں ۔
آپی ہم کب جائے گے کپڑے اور جوتے لینے؟
چھوٹی کی فرمائش سن کر شازمہ کے آنسو حلق میں اٹک گئے ۔
سکول سے تنخواہ وہ پہلے ہی اڈوانس لے چکی تھی ۔ اب نمرہ کی خواہشات اور امی کی دوائیاں خریدنے کے لیے وہ پارٹ ٹائم ٹیوشنز اور سلائی کا کام کر رہی تھی۔ جس کی جمع پونجی ملا کر وہ نمرہ کی عید کی تیاری کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔
چاند رات میں وہ نمرہ کو ساتھ لیے اس کی پسندیدہ فراک ، جوتے ، چوڑیاں، مہندی وغیرہ لے آئی۔۔
تاکہ اس کی ننھی گڑیا کی خوشی میں کوئی کمی نہ رہے۔
بیس سالہ شازمہ اپنے گھر کی واحد کمانے والی لڑکی تھی بابا کی وفات کے بعد تایا لوگوں نے یتیم بچوں اور بھابھی کو گھر سے نکال دیا۔۔ جس سے شازمہ کی ماں کو صدمے سے فالج کا مرض لاحق ہوگیا۔
مختلف دکانوں سے ہوتے ہوئے اچانک ہی اس کی نظر گلابی رنگ کے خوبصورت فراک پر پڑی ۔ لیکن اپنی خواہش کو دل میں دبائیں نمرہ کو لیے وہ گھر کی طرف چل پڑی۔ جہاں بجلی کا بل اور گھر کے دوسرے اخراجات کی ذمہ داری اس کے کاندھے پر ابھی موجود تھی۔۔۔۔
آہ۔۔۔ کتنی مشکلات سے بھر گئی تھی اس کی زندگی
زندگی کی رونق تو جیسے ہمیشہ کے لیے ہی اسکی آنکھوں سے نوچ لی گئی تھی۔۔
امی کے کاندھے پہ سر رکھے وہ بنا آواز رو رہی تھی
جب امی نے پکارا ۔
شازی بچے اٹھ جاو۔ تھوڑی مہندی آپ بھی لگا لو بچے ۔ اس بات پر وہ سرخ آنکھوں سے مما کو دیکھنے لگی
مما احمد کے بنا کون سی عید اور کونسی مہندی۔۔ آپکی شازی کی خوشیاں وہ میجر صاحب اپنے ساتھ ہی لے گئے تھے
اپنے بستر پر سوتے ہوئے ماضی کی جھلکیاں اس کی آنکھوں میں جھلملا رہی تھی۔۔ جہاں وہ اس کے بابا اور وہ اس کی متاع حیات کا حسین تصور موجود تھا۔۔
(ماضی)
احمد کدھر ہیں آپ ؟ اج مجھے کالج آپکے ساتھ جانا ہے احمد اب اٹھ جائیں ناں !
تائی امی بلا رہی ہیں آپ کو
احمد سونے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اس کے حسین چہرے پہ جھنجلاہٹ دیکھ کر دل ہی دل میں مسکرا رہا تھا
اور اچانک ہی پانی سے بھری بالٹی سے سار ا بستر گیلا ہوگیا۔۔
اور احمد ہڑبڑا کے اٹھ بیٹھا۔
شازمہہہہہہہہہ۔۔۔ وہ صدمے سے چلا اٹھا۔۔۔۔
اووو۔۔ میری آئرن لیڈی۔۔۔ اب جنگ کرے گی مجھ سے
یار کوئی اپنی زندگی کے ساتھ ایسا ظلم کرتا ہے ظالم لڑکی۔۔ جاؤ میں تم سے بات نہیں کرتا۔۔
اور جاتے ہوئے مل کر بھی نہیں جاؤ گا۔
احمد شازمہ کی دکھتی رگ پہ ہاتھ رکھتے خود سیٹی بجاتا شاور لینے چلا گیا۔
پیچھے شازمہ کا منہ صدمے سے کھلا رہے گیا۔۔
ناشتے کی ٹیبل پہ دونوں فیملیوں نے مل کر ناشتہ کیا اور شام کو شاپنگ کرنے کا پلان بنایا۔۔
احمد بھی ساری ناراضگی بھلائے شازمہ کی ہر خواہش ہسی خوشی پورا کرتا رہا۔اس کے ہاتھ میں خوبصورت سی ہیرے کی انگوٹھی پہنائی شازمہ نے اچانک ہی اتنا خوبصورت سرپرائز دیکھا تو خوشی سے بھرپور مسکراہٹ کے ساتھ مہک اٹھی۔
اووو سو سویٹ ۔۔۔میرا ہینڈسم فوجی
میری زندگی ! بہت بہت شکریہ! میرا ساتھ دینے کے لیے
ہمیشہ میرے ساتھ رہنا احمد ۔۔
نہ جانے کیوں آپکی اتنی محبت سے میرا دل بہت گھبراتا ہے میں آپکو کھونے سے ڈرنے لگی ہوں۔۔
وہ اچانک ہی رو پڑتی ہے ۔
احمد شازمہ کو گلے لگا کر تسلی دیتا ہے کہ تمہیں فخر کرنا چاہیے تم پاکستانی آرمی کے میجر کی " متاع حیات" ہوں
تمہیں مضبوط ہونا ہے۔ کیونکہ مستقبل میں بھی مجھے تمہاری طرف سے بلند حوصلے اور بہادری کی ضرورت ہے
وعدہ کرو مجھ سے کہ خدا نہ کرے کبھی میں راہ حق میں شہید ہوجاؤ تو تم کمزور نہیں پڑو گی۔ مجھے تمہارے آنسو بہت تکلیف دیتے ہیں۔
پر احمد تم لوٹ کر آؤ گے ناں اپنی شازی کے پاس
وعدہ کرے آپ۔۔۔۔
وعدہ میری چھپکلی ! تمہارا احمد ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوگا ۔
ارےتم تو میری آئرن لیڈی ہو اور صنف آہن بھی... تو یہ رونا کیسا ہمیشہ ہستی رہا کرو۔۔۔
شازی صنف آہن کے ٹائٹل پہ خوشی سے مسکراتی ہے۔
دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ زندگی کے خواب سجائے اور اس حسین لمحے کو ایک خوبصورت سی تصویر میں کلک کیا۔
صبح عید پر شازمہ اپنے حسین ہاتھوں میں مہندی رچائے سجی سنوری بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔ سب نے مل کر عید گزاری اور شام تک گھومتے پھرتے رہے ۔احمد بھی عید کے بعد چلاگیا۔۔ اور شازمہ بھی پڑھائی میں مصروف ہوگئی۔۔
ایک ماہ بعد ہی شازمہ کے بابا کی کار ایکسیڈینٹ میں وفات ہوگئی۔ تو تایا اور تائی نے جائداد پہ قبضہ جمانے کے لیے اپنے رنگ دیکھانے شروع کردیے۔ ان سے سب کبھ چھین کر شازمہ کی مما کو بچوں سمیت گھر سے نکال دیا جس صدمے کو وہ سہہ نہ سکی اور فالج کی مریضہ بن گئی۔
اس مشکل وقت میں شازمہ ہی تھی جس نے دن رات کو بھلا کر اپنے آشیانے کو نئے سرے سے سنبھالا ۔ وقت گزرتے گزرتے دو سال بیت گئے ۔ مگر شازمہ اب بھی اپنے میجر کی طرف سے امید لگائے بیٹھی تھی۔
تبھی کمرے میں کسی کی موجودگی کا احساس ہوا وہ سامنے ہی موجود تھا۔
میجر۔۔۔ تتتم ۔۔۔ احمد ۔نہیں نہیں۔۔یہ خواب ہے
شازمہ بری طرح چونک گئی ۔
تبھی احمد نے ماسک ہٹایا اور شازمہ کے کان میں چپکے سے سرگوشی کی۔۔
"دیکھو تمہارا میجر لوٹ آیا "
اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔
عید کے ساتھ شازمہ کی زندگی کی خوشیاں بھی لوٹ آئی تھی. احمد نے شازمہ کو فخریہ انداز میں محبت سے دیکھتے ہوئے کہا
"عید مبارک صنف آہن "
ماشاءاللہ۔۔۔۔ماشاءاللہ
جواب دیںحذف کریں