اقصی سرور افسانچہ برائے مقابلہ
عنوان: عید مبارک صنف آہن
ماہم جلدی سے اٹھو سحری کرلو جھوٹے بھائی بہن کو بھی اٹھاؤ سولہ سال کی ماہم اپنی ماں کی آواز پر اٹھتی ہے اور بہن بھائی کو بھی اٹھاتی ہے سب سحری کرنے بیٹھتے ہیں بھائی جو کہ دونوں بہنوں سے چھوٹا ہے ماما کو کہتے یہ ہوئے روٹی اٹھا رہا ہوتا ہے کہ ماما آج 26 واں روزہ ہوگیا ہے ہمیں نئے کپڑے کب لاکے دیں گی۔ ماما علی کو تسلی دیتے ہوئے کہتی ہیں بیٹا آج میں جاؤں گی کام پر تو تنخو ا کا پوچھوگی پھر سب کو نئے کپڑے لا کے دوں گی سب سحری کرتے ہیں اور ہیں نور بانو بچوں تو سکول بھیج کر اپنے کام پر روانہ ہو تی ہے جو کہ وہ گھروں کی صفائی کرکے بچوں کا پیٹ اتنی مہنگائی میں بمشکل پال رہی ہوتی ہے کام سے فارغ ہونے کے بعد مالکوں سے اپنی تنخوا کا مطالبہ کرتی ہے کہ اس دفعہ پہلے دے دیں تاکہ میں بچوں کے عید کے کپڑے خرید سکوں کوئی بھی مالکن ایسا کرنے پر راضی نہ تھیں ۔ نور بانو صبر کرتے ہوئے گھر جاتی ہے دل میں اللہ سے دعائیں کرتی ہیں کہ کوئی سبب بن جائے اور پھر روٹین کو طرح سب چلتا رہتا ہے وہ محنت کرتی ہے یوں ہی گزرتے دن 29 واں روزہ ہو جاتا ہے اور اقراء اپنی بہن ماہم کے ساتھ افطاری کے برتن رکھواتے ہوئے کہتی ہے آپی اگر آج پاپا زندہ ہوتے تو ہمیں بھی نئے کپڑے ملتے ہم بھی خوش ہوتے پاپا ہمارے لئے چوڑیاں لاتے ماہم کی آ نکھیں آنسوؤں سے نم ہوگئی لیکن اقراء کو حوصلہ دیتے ہوئے کہتی ہے اداس نہ ہو ہم اگلی عید پر ضرور سب کچھ لیں گے۔ نور بانو سب ان کی باتیں سن رہی ہوتی ہے اور ماں کا دل غم سے پھٹ رہا ہوتا ہے اللہ سے امید باندھے دل ہی دل میں دعا کرتی ہے . ماما لگتا ہے اذان ہورہی ہے روزہ کھول لیں ۔ مغرب کی نماز کے بعد دروازے پر دستک ہوتی ہے نور بانو جاتی ہے تو دوروازہ کھولتی ہے تو کہتی آمنہ بی بی آپ یہاں ہمارے غریب خانے میں کیسے آمنہ کہتی ہے میری آنکھیں میرے اللہ نے کھولی دی کہتے ہوئے گفٹ پیپر چھپے عید کے گفٹ پکڑاتے ہوئے کہتی ہے عید مبارک صنف آہن۔
اقصیٰ سرور
اچھی تحریر لکھی ہوئی ہے
جواب دیںحذف کریں