رمشاء بنت صغیر افسانچہ برائے مقابلہ


 *صنفِ آہن کو عید مبارک*

رمشاء بنت صغیر احمد(فیصل آباد)

”دفع ہو جاو میری زندگی سے دوبارہ شکل نہی دِیکھانا اپنی مجِھے،جب سے آی ہو ،زندگی عذاب کر رکھی ہے“
اس کے قطار کی صورت گرتے آنسو موبائل کی سکرین پہ جانے کب جَذ
ب ہوتے گے ، جسم نڈھال ہو گیا ،اپنا وجود اس قدر کمزور محسوس ہو رہا تھا گویا کہ ابھی لڑکھڑا کر گِر جاے ۔موبائل آف کر کے اپنے گھٹنوں پہ سر رکھ مسلسل روۓ جا رہی تھی ۔سوچو میں گم ، دل میں کسی کی چاہ رکھ کر کسی دوسرے شخص کو نکاح میں قبول کرنا ،ماں جو ہر وقت نگران مقرر کی ہوئ ،باپ جو بیٹی کی محبت کا پتا چل جانے کے بعد بیٹی ماننے سے انکاری ، مستقبل کے خدشات ،لوگوں کے رویے ، اللّٰہ کے غضب کا ڈر ،مکافاتِ عمل کا خوف محبوب کی جدائ کا دکھ اور محبوب کا یہ رویہ اسکی جان کا روگ بن رہا تھا اسکا بکھرے وجود کے سارے بخیے اُدھیڑ چکا تھا۔ وہ روز جتنا سمیٹ رہی تھی ساری بکھر گئ ،سوچ رہی تھی محبوب چاہے جیسا بھی ہو جزبات ،احساسات،صحت اور دل و دماغ پہ اثر رکھتا ہے ، سوچ رہی تھی کہ کیا کروں ؟ دل میں کسی کی چاہ رکھ کے گھر والوں کی مرضی سے نکاح کر لے؟ اگر کرے تو اسکے شوہر کا کیا قصور ہو گا کہ اسکی بیوی کسی کی محبت رہ چکی ہو، سر پہ ہاتھ رکھ کے بغیر آواز کے چیخت ہو، بالوں کو جھنجوڑتے ہوے اللّٰہ کو پکارتی ہے ۔ اسکا سینہ درد کر رہا ہوتا ہے اور جسم نڈھال ،دل شکسہ گویا کہ ابھی مر جائیگی۔چیخ چیخ کر رونا چاہتی ہو۔ ماں آواز دیتی ہے بیٹی چاۓ نہیں بنی اور وہ چونک کر جلدی سے آنسو صاف کرتی ہے خود کو دلاسہ دلا کر کہتی ہے ”بس ابھی لائ“۔
اور آنسو اسکے رخسار کو تر کرتے جا رہے ہے اسکے بار بار صاف کرنے کے باوجور ،اسکا دل محبوب کی بے رخی کے باعث پھٹ رہا تھا سر کے خلیات درد سے بھرے پڑے تھے چینخ چینخ کر رونا چاہتی تھی ۔نڈھال جسم کے ساتھ ماں کو چاۓ دیتی ہے جو کپڑے تہہ لگا رہی ہوتی ہے بنا اسکی جانب دیکھے کہتی ہے یہ تمہارے کپڑے عید کے لیے ہے،اور وہ سوچو میں پھر کھو گئی ،ماں نے کوئ جواب نہ پا کر چاۓ کا کپ پکڑتے ہوئے اسکی سرخ آنکھیں دیکھ کر تڑپ سے وجہ پوچھی تو وہ مسکرا دی اور آنکھوں کو ملتے ہوے کہتی ہے کہ مجھے لگا تھا میرا سوٹ نہی لیا عید پہ، اور ماں مسکرا دیتی ہے اور وہ خود سوچوں میں گم چہرے پہ ہنسی اور دل میں طوفان لیے بیٹھی اپنے خدشات کو سوچ رہی ہوتی ہےکہ ابھی عید بھی گزارنی ہے ؟ . اچانک سے خیال آتا ہے *”عنقریب اللّٰہُ تمہیں اتنا دیگا کہ تم پا کر خوش ہو جاو گے“* اور وہ مطمئن ہونے لگی۔
مگر دل و دماغ بار بار محبوب کے رویہ کی عکاسی کرتا دل سے دعا مانگتی*” بہتر لے کر بہترین دینے والے تو بے نیاز ہے ،میں بھی بہترین کی طالب ہوں“* ۔ اللّٰہُ کا شکر ادا کرتی ہے اور اپنے بکھرے وجود کو سمیٹنے لگتی ہے ،وضو کیا اور نڈھال بدن سے بکھرے وجود کے ساتھ نماز پڑتے ، دل شکستہ سجدے میں آنسو رواں ؛انسان جتنا مرضی مضبوط بن جاے اللہ کے سامنے آنسو نہی چھپا سکتا ۔خود کو دلاسہ دیتی ہے آنسو صاف کرتی ہے اور امید لیے اُٹھتی ہے:
*”جو ہوتا ہے اچھے کیلیے ہوتا ہے ،جو ہو گا،اچھا ہو گا ،جو ہوا اچھا ہوا“*
نڈھال جسم ،بوجھل دماغ سرخ آنکھیں ، کمزور دل اور لاغر بدن ایک نئ امید کے ساتھ عید کی تیاری کرنے لگتا ہے ۔ بھائ کے اسرار پہ مہندی لگواتی ہے، چوڑیاں پہنتی ہے اور ماں کی پسند کے جوڑے میں ملبوس تعریفی کلمات سمیٹتیں(گہری سوچ:کاش اسے بھی پسند آ جاتی) اور عید مبارک کہتے،محبوب کا انتظار ، محبوب کے دو خوبصورت الفاظ کی امید ،جدائ کا غم ،خود کی تزلیل ،دل میں قرب ،زہن بوجھل ،سرخ آنکھیں جو آئی شیڈ کے نیچے چھپا رکھی تھی ،لاغر بدن جو بظاہر کسی تنی کمان نظر آ رہا تھا،چہرے پہ مسکراہٹ سجاے اور اپنا درد چھپا،سب سے مسکراہٹ کے ساتھ عید ملنے والی ،گہرے خیالات ،قیاس ،خدشات اور انتظار چھپاے فقط اپنے سے وابستہ پیاروں کی خوشی کیلئے اِس صنفِ آہن کو عید مبارک ۔
عید مبارک صنف آہن تم بہادر ہو ،عظیم ہو،تم وہ لالِ گُل ہو جو خود کانٹوں میں رہ کر اپنے پیاروں کی آبرو اور خوشیوں کا مان رکھتی ہو ، *عید مبارک صنفِ آہن ہزار بار عید مبارک*

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں