قراۃالعین شفیق افسانچہ برائے مقابلہ

نام قراۃالعین شفیق ساہیوال 
 عنوان عید مبارک صنف آہن 
 سلطانہ جلدی جلدی سے اپنے گھر کے سب سے چھوٹے کمرے میں داخل ہوئی- جہاں عورتوں کا جم غفیر تھا اتنی عورتیں دیکھ کر من ہی من میں لڈو پھوٹنے لگے- آج کمائی اچھی ہوگی سلطانہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتی تھی میڑک پاس کرنے کے بعد اس کے والدین نے پہلے رشتے کو ہاں کہہ کر اسے بوجھ سمجھ کر اتارنے کی کوشش کی- سلطانہ کی توقع سے زیادہ بے حس ساس ملی- سلطانہ عباس سے سلطانہ راشد ہوگئی تھی راشد زیادہ نہیں تو تھوڑا احساس کرجاتا سلطانہ کی خوبصورتی کو مفلسی دیمک کی طرح چاٹ رہی تھی- سلطانہ کا بہت شوق تھا کہ اس کا بھی ایک پارلر ہو راشد کی منت سماجت کرکے اس نے ایک سرکاری ادارے میں بیٹویشن کورس کا آغاز کیا اس کی دن رات کی محنت اور شوق نے اسے اس کام میں ماہر بنادیا- کورس سیکھنے جاتی گھر کو سنبھالتی دن بھر کی محنت سے تھکن زدہ جب وہ بستر پر لیٹتی تو شوہر کے طعنے شروع ہوجاتے- اس کے آنسو اس کے گلے شکوے صرف اس کا تکیہ سنتا تھا جو صبح ہونے سے پہلے خشک ہوجاتا تھا پہلے ایک پارلر میں سیکھنے کی غرض سے گئی تنخواہ کم سےبھی کم تھی- لیکن اسے سیکھنا تھا اس نے دن رات محنت کی وہاں اپنی محنت اور دن رات کی محنت کے جوہر دکھا کر اس نے سب کے دل میں اپنی جگہ بنالی تھی- بہت محنتوں کے بعد اس نے اپنے گھر کے چھوٹے کمرے میں اپنا پارلر سیٹ کرلیا تھا اج بیسواں روزہ تھا اس کی جو جمع پونجی ساری گھر کے سودا سلف لانے میں لگ جاتی تھی- اس کی بہت خواہش ہوتی تھی وہ ہر عید پر نیا سوٹ پہنے لیکن ایسا بہت کم ہوتا تھا اب جب وہ تین بیٹیوں کی ماں تھی تو اس کی یہی کوشش تھی کہ وہ اپنی بیٹیوں کے تن پر نیا لباس دیکھ سکے آج اس نے پارلر میں آتے بہت تیزی سے کام نپٹانا شروع کیا -رات کے چھ بج گئے اس کی کمائی پہلے کی نسبت بہت اچھی تھی جب وہ کچن میں کھانا پکانے تھکے ہارے بدن ساتھ پہنچی تو اس نے ساس کو روٹیاں بناتے دیکھا تو حیران کن نظروں سے امی آپ یہاں ؟بیٹا تمھیں مصروف دیکھا تو چلی آئی وہ جانتی تھی امی اتنی سیدھی نہیں ہیں لیکن وہ جلدی سے ہاتھ بٹانے لگی راشد جب اپنا ڈبہ اُٹھائے گھر آیا -امی اج سارے دن میں صرف دو جوتیاں پالش ہونے کو آئی تھی جب سلطانہ آج بستر پر لیٹی تو تھکن نہ ہونے کے برابر تھی لوگ کہتے ہیں پیسوں سے کچھ نہیں خریدا جاسکتا- لیکن ان پیسوں کی چمک نے انہیں تروتازہ کردیا تھا اب جیسے جیسے دن گزررہے تھے رش بڑھتا جارہا تھا امی کا رویہ دن بدن اچھا ہورہا تھا سلطانہ سوچ رہی تھی لگتا ہے- امی کو میرا خیال آگیا ہے آج اسے پارلر میں نوبج گئے اج پچیسواں روزہ تھا امی کی طبیعت بہت خراب تھی بار بار بچے تنگ کررہے تھے- جیسے وہ پارلر سے باہر نکلی سب کچھ کرنے والا تھا کسی نے ایک گلاس تک اٹھا کر ادھر سے ادھر نہیں رکھا تھا- آج اسے بھی پارلر سے اتنی فرصت نہیں ملی تھی کہ وہ گھر کے کچھ کام نپٹا سکے تھکا ہارا جب راشد گھر آیا گھرکی یہ حالت دیکھ کرآپے سے باہر ہوگیا -سلطانہ میں نے تمھیں اس لیے پارلر کھول کردیا تھا تم گھر کو بالکل بھول جاؤ بہتے آنسوؤں ساتھ اس نے روٹیاں پکائی سب کو دی آخر میں آٹا ختم ہوگیا اسے دو نوالے بھی نصیب نہ ہوئے-
اس نے راشد سے پیسے مانگے بچیوں کے لیے کہ کچھ کپڑے خرید لائے- راشد غصے سے روٹی پوری نہیں ہوتی کپڑے کہاں سے لاؤ گی اس نے اپنے سارے پیسوں کو مٹھی میں یکجا کیا مارکیٹ میں تینوں بیٹوں کے لیے خوبصورت رنگوں کی امتزاج والی فراکیں خریدی تینوں کے لیے سیل سے خسے لیے آج بہت خوش تھی- گھر جانے لگی تو امی کا خیال آیا اس نے پانچ میٹر ہلکے رنگ کا کپڑالیا جب گھر پہنچی تو پارلر میں بہت رش تھا جاتے ہی کام کو جت گئی پارلر سےفراغت پاکر جب اس نے بیٹیوں کو ان کے کپڑے دیکھائے تو ان کی خوشی دیکھ کر اس کی صدیوں کی تھکن اتر گئی- جب باہر نکلی تو کھانے کی خوشبو سے دل خوش ہوگیا اس کو شاپر میں پڑا سوٹ یاد آیا اس نے لا کر امی جان کو دکھایا تو امی نے خوشی سے اسے سینے سے لگالیا آج اٹھاسویں روزہ تھا رش اتنا کہ پورا گھر بھر گیا صبح چاندرات ہوگا یا نہیں یہ سوچ کر ساری عورتیں اس کے گھر آئی ہوئی تھی- آج اسے بارہ بج گئے جب اٹھ کر باہر آئی تو سب سوگئے تھے کچن میں دو روٹیاں پڑی تھی اس نے کھائی دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ اور ماں کاشکراداکیا -اس کے پاس اتنے پیسے تھے کہ وہ اپنا اور راشد کا سوٹ خرید سکے یہ سوچ کر وہ سوگئی راشد چار بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا- صبح جب چھوٹی نند کو بھائی سے بات کرتے سنا کہ اتنے پیسے نہیں ہیں میرے پاس کے تمھیں عیدی بھیج سکو یہ سن کر اس کا ارادہ بدل گیا- اس نے دو ہزار امی جان کی مٹھی میں دبایا امی جان یہ دوہزار روپے چاروں نندوں کو عیدی کے طور پر بھیج دیں یہ سن کر اس کی ساس نے اسے گلے لگایا -پیسوں سے صرف راشد کا سوٹ خریدا چاندرات کو اتنی کمائی ہوئی کہ عید کے تین دن آرام وسکون کے ساتھ گزر سکے-
جب تین بجے پارلر سے وہ کمرے میں پہنچی تو شاپنگ بیگ میں کپڑے چوتے بندے گجرے ,کڑے, چاکلیٹ, دیکھ کر حیران وہریشان رہ گئی اتنے میں راشد عید مبارک صنف آہن یہ سب میرے لیے جی یہ میری بیوی کے لیے کہاں سے آئے یہ سب راشد میں اپنے پیسوں سے کمیٹی ڈالی تھی چھوٹی سی صرف تمہارے لیے آج کی رات خوشیوں بھری رات تھی صدیوں کی تھکن اس ایک رات میں گزرگئی-
 

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں