ماہم کرن ریاض افسانچہ برائے مقابلہ


 " دیکھیں ہمیں اس وقت ٹیچرز کی ضرورت نہیں ہے۔ جب ضرورت ہوئی تو آپکو کال کر دی جائے گی۔ " پرنسپل نے کہا ۔ 

" جی " وہ بس اتنا ہی کہہ سکی ۔ وہ اُداس سے باہر کی جانب چل دی ۔۔
____________
" کیا ہوا اتنی اُداس کیوں ہو ؟ " یونی ورسٹی کے پارک میں عصبہ اُداس بیٹھا دیکھ کر سارہ نے کہا ۔
" کیا ؟" عصبہ جو اپنی ہی سوچوں میں گھوم تھی اچانک سے چونک اٹھی ۔
" اففف ہو ! عصبہ کیا ہوگیا ہے تمھیں ؟" " کچھ نہیں! وہی گھسا پٹا جواب ہمیں ابھی ضرورت نہیں ہے ٹیچرز کی وغیرہ۔ " عصبہ نے غصّے اور افسوس کے ملے جلے جذبات سے کہا ۔
" فکر نہ کرو انشا اللہ! مل جائے گی جاب ۔" سارہ نے حوصلہ دیتے ہوئے کہا ۔
" انشاء اللہ " ۔
________
" یہ اچانک سے امی کو کیا ہوگیا ہے؟ " عصبہ نے تشویش سے سامنے بیٹھے سفید کوٹ میں موجود ڈاکٹرسے پوچھا ۔
" آپکی والدہ کو خون کی کمی ہے جس کی وجہ سے وہ اتنی کمزور اور بیمار رہنے لگیں ہیں " ڈاکٹر نے کہا ۔
" یہ میں آپکو کچھ دوائیاں لکھ کر دیں رہا ہوں باقاعدگی سے اپنی دینی ہیں ۔ اور انکی غذا کا خاص خیال رکھنا ہے ۔ " ڈاکٹر نے پرچی اور لکھتے ہوئے ہدایت دی ۔
" شکریہ ." 
" یہ دوائیں دے دیں ۔" میڈیکل اسٹور والی کو دوائیوں والی پرچی دیتے ہوئے بولی ۔
" یہ دوائیں کتنی کی ہیں ؟ " 
" ۲۰۰۰ کی ہیں باجی ." 
دو ہزار کا سن کر عصبہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔
" اتنی زیادہ مہنگی؟ " 
" باجی ایک ہفتے کی ہیں. " اسٹور والے لڑکے نے منہ بنا کر کہا ۔
" مبارک ہو! کل پہلا روزہ ہے ." کسی نے اسٹور والے لڑکے کو کہا ۔
" ہیں !کل پہلا روزہ بھی ہے . " عصبہ نے پریشانی سے سوچا ۔۔
_______
"عصبہ بیٹا مجھے کرنے دو میں ٹھیک ہوں ۔" امی نے عصبہ کو سارے کام کرتے دیکھ کر کہا ۔
" امی آپ ٹھیک نہیں ہیں لہٰذا آپ آرام کریں۔ " ماں کی بات ان سنی کر کے وہ اپنے کام میں مصروف ہو گی ۔
" اور آپی امی کو سمجھا دیں اب کپڑے نہ سلنے لگ جائیں " اچانک سے یاد آنے پرعلی بول اٹھا ۔
" ہممم بلکل .." ادرک لہسن کا پیسٹ بناتے ہوئے کچن سے بولی ۔
" اب پڑھ جاؤ دونوں میرے پیچھے!" غصے سے کہتی وہ اپنی کمرے میں چلی گئیں ۔
پیچھے دونوں بہن بھائی کا قہقہہ بلند ہوا ۔ 
_______
" سامان کی لسٹ تو بن گئے اب پیسے کہاں سے لائیں گئے " علی نے بہن کو دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
" فکر نہ کرو اللہ ہے نا بس دعا کرو ۔ کل والا انٹرویو پاس ہو جائے۔ " بھائی کو پریشانی دیکھ کر حوصلے دیتے ہوئے کہا ۔
_______
" دیکھیں ابھی آپکے گریجویشن کمپلیٹ نہیں ہے ۔تو ہم آپکو زیادہ پے نہیں پائیں گے۔ " پرنسپل نے کہا ۔
" آپ کتنا پے کر سکتے ہیں ؟" 
" آپکا تجربہ بھی کم ہے اور آپکی گریجویشن بھی کمپلیٹ نہیں ہوئی تو ہم آپکو دس ہراز ہی دہ سکتے ہیں۔ " 
" دیکھیں مام تجربہ نہیں ہے مگر اسی سال میری گریجویشن کمپلیٹ ہو جائے گی اور دس ہزار بہت کام ہے ۔کام از کام پندرہ ہزار تو ہو۔ " عصبہ نے کہا ۔
" ہممم آپکے بات تو صحیح ہے مگر اس وقت میں آپکو بس تیرہ ہزار ہی دے سکتی۔ " پرنسپل نے کہا ۔
" جی ٹھیک ہے ۔"
" آپ کل سے جوائن کر لیں ۔"
" تھینک یو میم۔ "
_____

" یہ کیا کے رہی؟ " بیٹی کو کپڑے سلتے دیکھ کر ماں نے تڑپ کر کہا ۔
" امی کپڑے تھے تو سوچا سل لوں۔ " معصوم سا منہ بنا کر کہا ۔
" تھک جاؤ گی اتنا کام کرو گی تو ۔" ماں نے فکرمندی سے کہا ۔۔
" کچھ نہیں ہوتا امی یہ صنف نازک نہیں صنف آہن ہیں !" فون پر گیم کھیلتے ہوئے علی نے کہا ۔
" اور تم کیا ہو . " ماں نے غصے سے جوتا اٹھایا گیم کھیلتے ہوئے علی کو دے مارا ۔
" ہائے ! مجھے کیوں مارا؟ " علی نے دوہائی دی .
" یہ نہیں کی بہن کی مدد کرو نواب صاحب گیم کھیل رہے ہیں ۔"
_____
" عصبہ بہت اچھا کام کر رہی ہیں آپ گڈ!" پرنسپل نے عصبہ کا کام دیکھتے ہوئے کہا ۔۔
" تھینک یو میم. " عصبہ نے خوشی سے کہا ۔۔
" یہ لیں ." پرنسپل نے سفید رنگ کا لفافہ تھامتاتے ہوئے کہا ۔ 
" یہ کیا ہے میم؟" عصبہ نے حیرانی سے سوال کیا ۔
آپکی سیلری ہے ۔" 
" سیلری! مجھے تو ابھی ایک مہینہ بھی مکمل نہیں ہوا ؟" 
" جی بالکل ! ہمارے اسکول کا رول ہے عید سے پہلے سیلری دینے کا ۔" پرنسپل نے کہا ۔
" اوہ تھینک یو میم! " 
______
" کہاں تھی تم ؟ کب سے کال کیئے جا رہی ہوں۔ " سارہ نے پوچھا ۔
" راستے میں ہی تھی ۔کیا ہوا ؟"
" تمھیں نہیں پتا تم نے کیا کیا ہے ؟ " 
" مم م میں نے ؟ " 
" جی آپ نے ۔" 
" ارے! بتلاؤ تو بلا ۔" 
"تم نے…… "
" میں نے … آگے!" 
" تم نے ۔۔۔۔۔۔۔۔ پوری یونی ورسٹی میں ٹاپ کیا ہے ! " سارہ نے خوشی سے اُسے گلے لگایا جو ابی تک سکتے میں تھی ۔۔
" کیا سچ میں ؟ 
" ہاں " 
______
" یہ کیا ہے بیٹا ؟" ماں نے اسی اتنے سارے سامان کے ساتھ دیکھ کر پوچھا ۔
" عید کی شاپنگ ہے امی اور کیا ؟ ." عصبہ کے بجائے علی نے جواب دیا ۔
ماں نے گھورتی نگاه ڈالی اور عصبہ کی جانب متوجہ ہوئی ۔
" امی آج مجھے سیلری ملی ہے اور ۔۔۔۔ " 
" اور آپی نے یونی میں ٹاپ کیا ہے. " عصبہ کی بات مکمل ہوتی کے علی بیچ میں بول پڑھا ۔۔
 عصبہ چپل اٹھاتی علی کی پیچھے دوڑ پڑی جو پہلے ہی موقعے کی نزاکت کو سمجھ چکا تھا ۔۔۔ ماں دونوں کو اس طرح خوش دیکھ کر دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کررہی تھی۔
______
" سوایاں بن گئیں." علی نے آواز لگائی ۔
" تم جا کر نماز تو پڑھ لو ." جواب ملا ۔
"جا رہا ہوں۔ " عصبی کو گھورتی ہوئے کہا ۔
" عید مبارک امی! " علی نے ماں کو گلے لگاتے ہوئے کہا ۔
" عید مبارک ہماری صنف نازک اوہ صنف آہن!! "  
 " چلیں ایک سیلفی لیتے ہیں " ۔ 
" ہاں چلو۔"  
________
افسانہ: عید مبارک
تحریر: ماہم کرن ریاض

تبصرے

ایک تبصرہ شائع کریں