افسانچہ: اسیر
ازقلم: رشنا اختر(محمود کوٹ)
"شاعر صاحب کبھی اس بوسیدہ سی بیٹھک سے باہر بھی آ جایا کریں تازہ ہوا اور کھلا ماحول اچھی صحت کے لئے ضروری ہے"۔ بشیر الدین نے تازہ سوہن حلوے کا ڈبہ سامنے رکھتے ہوئے کہا۔ اب آ ہی گئے ہو اور پوچھ بھی لیا ہے تو سنو میاں "جب سوچ انجان جزیروں میں بھٹکتی ہو اور روح سہانے صبح کے منظر دیکھتی ہو تو یہ باسی دنیا کے نظارے کس کام کے"؟ شاعر صاحب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ غضب کرتے ہیں شاعر صاحب لیکن "نیا سے کنارہ کشی بھی تو درست نہیں "۔ شاعر صاحب کا زور دار قہقہہ بلند ہوا اور بولے "بشیر الدین صاحب یہ دنیا کسی کے چھوڑنے یا اپنانے کی محتاج کب ہے ؟ یہ دنیا تو خود وقت کی اسیر ہے اور میں کسی اسیر کا اسیر نہیں ہونا چاہتا بس اتنی سی بات ہے " مجھے تو کبھی کبھی آپ کی باتیں بالکل سمجھ نہیں آتیں"بشیر الدین نے سوہن حلوہ منہ میں ڈالتے ہوۓ کہا اور پھر دائیں بائیں سر ہلاتے رہے جیسے کچھ سمجھنے کی کوشش کر رہے ہوں۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں