دولت
ازقلم: رمشاء بنت صغیر احمد(فیصل آباد)
مشہور کہاوت ہے
"غریب کی سوچ اور امیر کی دولت کسی کام کی نہیں"
ایک بڑے شہر کے قریب ایک گاوں میں رئیل سٹیٹ والوں کا کاروبار بہت تیزی سے پھیلنے لگا ۔اس لیے بڑے بڑے رئیل سٹیٹ کمپنی والے اس گاوں کے کسانوں کو کروڑوں روپے دےکر انکی زمینیں خریدنے لگے۔ وہ کسان اتنے پیسوں کا کیا کرنا ہے سمجھ نہیں پاے اور سب اس گاوں کے بینک کو جا کر بینک مینیجر سے بات کی ۔
بینک مینیجر نے کہا دیکھیے آپکے پاس جو پیسے ہے وہ کالے دھندے کے ہے اس لیے ہم آپکے آکاونٹ میں نہی ڈال سکتے ۔
تبھی ساجد نام کا ایک کسان بولا ہم نے رئیل سٹیٹ کمپنی والوں ہمارے آکاونٹ میں جمع کروانے کا بولا تھا مگر وہ لوگ انکم ٹیکس کا لفڑا ہو گا کہہ کر ہمارے ہاتھ میں رقم پکڑا گے ۔اب سونے کی دکان والے ،کار شو روم والے یہاں تک کے ہسپتال والے بھی کیش نہی لینگے کہہ کر موڑ دیتے ہے اور اب بینک والے بھی ہمارے پیسے نہی لینگے تو ہم کہاں جائینگے؟ چاہے تو ہم ٹیکس بڑھنے کے لیے بھی تیار ہے۔کچھ بھی کر کے ہمارے اکاونٹ میں پسے کر دے۔
بینک منیجر نے کہا نہی ہم نہی کر سکتے آپ چاہے ٹیکس بھر لے بوس نہی مانے گے الٹا تم پر کیس کرینگے۔لگتا ہے لوگ کالے دھندے کیسے کرتے یے آپکو پتا نہی ہے ۔آپ بہت معصوم لوگ ہو لگتا ہے۔
یہ سن کر کسان بہت افسردہ ہوے۔
بینک میں ایک راجو نام کا ایک ٹھگ ساری باتیں سن لیتا ہے ۔اور وہ کچھ روز بعد گاوں میں ایک اے_ٹی_ایم بنواتا ہے۔اور وہ سارے کسانوں کو اکھٹا کر کے کہتا ہے کہ میں شہرکی بینک سے آ رہا ہوں ۔ہماری بینک کی برانچیز امریکہ میں بہت ہے۔ہماری خاصیت یہ ہے کہ ہمارے اے_ٹی_ایم میں آپ جو پیسے Deposits کرو گے ہم آپکے پیسوں کو ڈالر بنا کر وائیٹ منی بنا کر آپکے اکاونٹ میں ڈالے گے۔اور سروس چارجیز کے طور پر آپ سے 2 فیصد چارجیز لینگے ۔آپ لوگ گھروں میں پیسے رکھ کر ڈر ڈر کر جی رہے ہے۔اس لیے آپکے ہم نے یہ اے_ٹی_ایم رکھا۔آپ جتنا چاہے اتنا پیسہ جمع. کروا سکتے ہے۔بس اپنا ہی سمجھے اسے۔
لوگوں نے بڑے بڑے بیگس بھر کر پیسے deposited کرنے لگے ۔اس اے_ٹی_ایم کے نیچے ایک انڈر گراونڈ تھا اور اس میں راجو تھا ۔ ایک پائپ کے زریعےکسانوں کے پیسے انڈر گراونڈ میں آکر گرنے لگی اور ”پاگل لوگ“ کہہ کر ہنسنے لگا۔
اور کسان ہر دن بھر بھر کر اے_ٹی_ایم میں بڑھنے لگے۔راجو نے س انڈر گراؤنڈ میں منی صوفہ،منی بیڈ تیار کیا اور منی بیڈ پہ سو کر چکن مٹن کھاتے ہوے انجواے کرنے لگا۔ایسے میں چار پانچ روز لگاتار پیسےجمع ہوتے رہے ۔
ایک روز کسان بینک مینیجر کے پاس گے۔ساجد کہنے لگا کہ منیجر صاحب آپ نے ہمیں معصوم کہا تھا نہ ۔دیکھئیے ہمارے پیسے وائٹ منی بن کر ہمارے اکاونٹ میں آ کر گرے ہے۔آپ ہمارا اکاونٹ اپڈیٹ کرے اور بتاے ہم بغیر جانے نہیں جائینگے۔
بینک مینیجر نے کہا کہ یہ پیسہ کیا ،وائیٹ منی کیا؟؟مجھے سمجھ نہیں آ رہی۔
تو کسانوں نے اسے سب کچھ بتایا
بینک مینیجر نے کہا کے ہو گیا سب ختم ہو گیا۔کوی لوٹ کر آپ سبکو لے گیا۔ایسی تو کوی بینک ہے ہی نہی۔میں نے کل ہی انکم ٹیکس والوں کو آپکی پریشانی کے بارے میں بتایا ہے۔اور وہ لوگ ٹیکس بھروا کر آپکے پیسوں کو وائیٹ منی بنانے کو تیار ہے۔اسکے اندر ہی آپ لوگ جلد بازی میں اپنےبپیسے گنوا بیٹھے ہیں۔یہ سن کر کسانوں کے پاوں کے نیچے کی زمین نکل گئ۔
ایک بوڑھی عورت ہاے اللہ! پہلے فصلیں اور اب پیسے بھی،ہمارا کیا ہو گا؟.
ایک کسان اپنے گھر میں پریشان بیٹھا تھا۔کہ اتنے میں اس کسان کا پوتا اجود آ کرکہتا ہے کہ دادا جی آپ نے کیسے سوچھا کہ ایک اتنے سے اے_ٹی _ایم میں آتنے سارے پیسے بھرینگے۔ اور ویسے بھی اسے کوی بھی آ کر خالی نہی کر رہا نہ۔دادا جی اب ہمارے پاس اب کتنے پیسے بچے ہے ؟
کسان نے جواب دیا پانچ لاکھ ہی بچے ہے اب
اجود نے کہا کہ وہ پیسے مجھےدے اور جیسے میں کہتا ہون ویسا کرے۔
اجود نے ان پہ ایک سپرے ماری اور ان پیسوں کو اے_ٹی_ایم میں ڈالا۔
جب پیسے پائپ سے انڈر گراونڈ میں گرے تو راجو ہنسنے لگا کہ کتنے بیوقوف لوگ ہے ابھی بھی پیسے ڈال رہے ہے اور ان نوٹوں کو اپنے منی بیڈ پر پھیلا دیااور وہ اس پہ سو کر بہت خوش ہو رہا تھا ۔تھوڑی دیر کے بعد
ہاے جلن ،جلن کہتا چلا اٹھا۔اور جلن کے مارے انڈر گراونڈ کا دروازہ کھول کر باہر آیا۔ وہاں سبھی کسان ڈنڈوں کے ساتھ تیار تھے۔اور سب مل کر راجو کو خوب مارا۔اور سب کسانوں نے اپنے اپنے پیسے انڈر گراونڈ سے جا کر لے لیے۔ اور راجو کو جیل ہو گئ۔
اور سب اجود کا شکریہ ادا کرنے لگے۔
موجودہ کرائمز کو مدِنظر رکھتے ہوے بنت صغیر احمد کی قلم سے لکھی گئ کہانی منفرد انداز میں جوصرف عکاسی کر رہی ہے سائبر کرائمز کی طرف۔
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں