صنف آہن ڈائجسٹ "نظم" مقابلہ میں حصہ لینے والے ممبران کی نظمیں۔۔
عنوان نظم: میری ہم جولیاں
از قلم: صفا خالد
کیسی عجیب ہیں یہ پہلیاں
نازک صنف کی یہ سہلیاں
ذرا سی تکرار پہ ہو جاتی ہیں افسردہ
کبھی جابجا اڑتی، کرتی ہیں اٹکیلیاں
زرا سی جو آہ نکلے تڑپ جاتی ہیں
جیسے اک مشت میں ہوں سب انگلیاں
مایئوں، ڈھولک،سنگیت، سجا کے
حاکم کا سا رعب دکھا کے
کیسی انمول ہیں یہ منہ بولیاں
بالی عمر کے دکھ سکھ بانٹ کر
آخر بچھڑر ہی جاتی ہیں یہ ہم جولیاں
-------------------------------------------------------------
نظم عنوان: میں ہوں صنف آہن
ازقلم: ثنا سلیم سومرو (سجاول)
میں ہوں صنف آہن
صنف نازک
نا کہے مجھے کوئ
نا ہی صنف نازک
اب رہی ہوں میں
ڈر اور خوف
چھوڑ آئی ہوں پیچھے
آگے بڑھنا ہے
اور بڑھتے جانا ہے مجھے
خواب جو دیکھے ہیں
میری آنکھوں نے
رنگ حقیقت کے
بھروں گی ان میں
کوشش کرنا ہے
اور بڑھتے ہی جانا ہے
حالاتوں کے ہاتھوں اب
مجبور نہیں ہونا ہے
کیونکہ دھار لیا ہے
روپ میں نے
بن گئی ہوں میں صنف آہن
سوچا ہے منوانی ہے
اہمیت اپنی
اپنے ہی مرتبے
کو پہچاننا ہے
بے بسی میں
نہیں رہنا اب تو
اپنی صلاحیتوں
کا لوہا منوانا ہے۔
جہاں میں ہو گا
اجالا ہر سو
کامیابی چلے گی
سنگ تیرے
زمانہ تجھ سے
ہی تو سجتا ہے۔
سجنا سنورنا بھی
تیرا گہنا ہے
مگر
صنف نازک کا رونا
نہیں رونا ہے
چل بات میری مان
کمر کس
اور بن جا صنف آہن
انمول ہے تو
وقت کی طرح
ضیاع وقت کا تجھ
پہ جچتا نہیں
سر پہ اپنے دکھوں
کا کبھی سایہ نا کرنا
کیونکہ ویرانیوں میں
پھول کھلتا نہیں
تو ہے انمول بس خود کو چاہ
خدا چاہے گا تم کو
سفر تم طئے کرو
منزل پر وہ پہنچائے گا تم کو
ڈٹ جانا خدا کے لیے بلکل نا ڈرنا
حق ملا ہے تجھے حق کی خاطر لڑنا
کہنے دو زمانے کو جو کہتا ہے زمانہ
مگر تم یاد رکھنا اپنا دل نا دکھانا
کامیابی کے سفر میں
خود کو ہی آزمانا
بس سوچنا قسمت کا جس دن
چمکے گا ستارہ
دشمن بھی آکے کہیں گے
تو ستارہ ہے ہمارا
اس وقت کو سوچ کر
ہر وقت اب ہے مسکرانا
میں تو کہتی ہوں کہنے دو
جو کہتا ہے زمانہ
ہمت دی ہے تیرے ان چونچلوں نے
مشکلوں سے مجھے کوئی خوف نہیں
قسم کھائی ہے میرے حوصلوں نے
خواب غفلت میں اب کھونا نہیں ہے
سکوں کی نیند اب سونا نہیں ہے
کیونکہ جگایا ہے مجھکو جب
جہاں کے زلزلوں نے
سنا ہے بلند حوصلوں کے آگے
پہاڑ بھی جھک جاتے ہیں
جھکونگی میں نہیں
کیونکہ میں ہوں صنف آہن
----------------------------------------------------------------
عنوان: ایسا ہو بھی سکتا ہو
ازقلم: بنت امین، ملتان
سنو پیاری
تمہارا چاہنے والا تمہاری
ہاں میں ہاں ملاتا ہوگا
تم دن کو رات جو بولو تو
وہ بھی دن کو رات ہی کہتا ہوگا
جب بیٹھے بیٹھے رات کبھی
تم چاند کو سورج بولو تو
وہ بھی ہنس کے ہاں پیاری
سورج ہی ہے کہتا ہوگا
جب بارش کی بوندوں کو
تم ہتھیلی پر سجا کر
رنگ برنگا کہتی ہوگی
وہ بھی کہتا ہوگا پانی
رنگ برنگا ہوتا ہے
جب تم بولو مشرق کو
مغرب ادھر ہی ہوتی ہے
وہ بھی مغرب کو مشرق اور
مشرق کو مغرب کہتا ہوگا
جب تم کہتی ہوگی دیکھو
میری آنکھیں چمکتی ہیں نا
وہ آسمان کے ستارے کہتا ہوگا
مگر سنو پیاری
ایسا ہو بھی سکتا ہے
تمہارا چاہنے والا تمہاری
ہاں کو نہ بھی بول دے
وہ رات کو کالی رات کہے
وہ چاند کو بولے چاند ہے وہ
وہ بارش کے پانی کو
بے رنگ بے رنگ کہہ دے گا
وہ بولے کے مشرق، مشرق ہے
وہ بولے کے مغرب، مغرب ہے
وہ تمہاری چمکتی آنکھوں کو
ستارہ کہنے سے مکر جائے
تم کہو ستارہ ہیں
وہ کہے کہ آنکھیں ہیں
سنو پیاری
ایسا ہو بھی سکتاہے
وہ تمہارا ہو بھی سکتا ہے
وہ پیارا کھو بھی سکتا ہے
ایسا ہو بھی سکتا ہے
-----------------------------------------------------------
نظم عنوان: صنف آہن
ازقلم:صائمہ بنت محمد امین (قصور)
کہتے ہیں سب صنف نازک
بننا ہے مجھے صنف آہن
ہے چنی مشکل منزل
گر ہو مقصد اچھا
کر لیتےہیں طے منازل
سہہ کر غم کرنا ہے خوش
کر کے برداشت مشکلات
کرنا ہے سب آسان
میں ہوں وہ ستارہ زمین
جسے چمکنا ہے آسمان تلک
بننا ہے مجھے صنف آہن
نہیں جانتا کوئی مجھے
مگر میں ہوں بہت انمول
رکھتی ہوں حدود اپنی
کرتی ہوں محنت پر یقین
اور کرو گی قسمت پر وار
نہیں رکھتی کوئی چاہ
میں منفرد میں ہوں باکمال
بننا ہے مجھے صنف آہن
دے مات کوئی ہے اس کی بھول
نہیں ہو میں کوئی نازک پھول
نہ ڈرتی ہوں نہ جھکتی ہوں
کہتی ہوں سچ یہی میرا اصول
نہ کرو سنگھار نہ کرو خواہشات
مٹا کر سب بڑھنا ہے مجھے آگے
بننا ہے مجھے صنف آہن
بکھیروں گی ہر سو اجالا
ہے ہر طرف اپنا لوہا منوانا
کر کے محنت مجھے ہے آگے جانا
کامیابی تک ہے خود کو پہنچانا
تھی اندھیروں میں کھوئی میں
وہاں سے گر ہے مجھے نکالا
تو رہنا نہیں تنہا مجھے اب
مجھے اب لشکر ہے اپنا بنانا
بننا ہے مجھے صنف آہن
-----------------------------------------------------------------
نظم عنوان:صنف آہن
ازقلم: عالیہ شاہین
اپنے معصوم بچپن کو
اپنے معصوم قہقوں کو
آج جب وہ یاد کرتی ہے
تو آنکھیں بھر سی آتی ہیں
کتنا کچھ ہے کھویا اس نے
کتنا کچھ پایا ہے
اس سفرٍ زیست میں
اس سفرٍ زندگانی میں
خود کو یوں تراشا ہے
اس لمبی مسافت میں
لڑ سکے خود کے لیے
بنا کسی کو دُکھ دیے
اپنے لیے وہ آواز اٹھا ۓ
بنا جھجکے ، بنا گھبراۓ
بغیر کسی کا حق دباۓ
بنا روۓ ، بنا کرلاۓ
”اپنے لیے آواز اٹھاۓ “
مزین اس نے ہے کیا خود کو
اسلام کے اصولوں سے
خدیجہ ؓ کی کہانی سے
خولہ ؓ کی بہادری سے
عاٸشہؓ کے اقوالوں سے
کل جو روتی تھی
ذرا سا زخم ہونے پر
آج وہ سسکتی تک نہیں
اپنی توقعات ٹوٹ جانے پر
وہ روتی آج بھی ہے مگر
تنہاٸی میں خدا کے سامنے
اسے مضبوط رکھے وہ
اُس کے اٍس مرتبے پر
جہاں آنے کے لیے
اس نے دی ہیں قربانیاں
جذبات کی ،حالات کی
ترجیحات کی ،خواہشات کی
وہ سب کو یہ ہی کہتی ہے
پہلے اپنا فرض نبھاٸیں
پھر بھی نہ پاٸیں
تو اپنے لیے آواز اٹھاہیں
بنا کسی کو ڈراۓ
بغیر دوسرے کا حق دباۓ
اس نے کیا کچھ ہے کھویا
اور کیا عجب ہے پایا
اس سفر میں ص
"صنف نازک سے صنف آہن تک کے"
-------------------------------------------------------------
نظم عنوان: صنف آہن
ازقلم: کوکب مشتاق گجرات
مبارک ہو تم سب کو آج
کہ!
صنفِ نازک اب
صنفِ آہن ہو گئی ہے
وہ جو کہلاتی تھی زن کبھی
اب وہی نا زن ہو گئی
ہے چاروں اوؤر ایسا تماشہ
کہ!
دھڑکن تیز دلوں کی ہو گئی ہے
مقابل آتی ہے ایسے دشمنوں کے
گویا اپنوں سے کوئی ان بن ہو گئی ہے
"میرا جسم، میری مرضی" کی
اس جنگ میں
اب دشمن کو بھی الجھن ہو گئی ہے
وہ رسوائی جو کبھی بازاروں میں تھی ہوتی
وہی اب ہر آنگن ہو گئی ہے
وہ مغربی ثقافتوں کا خول جسے
روشن خیالی گردانتے ہیں
یہ قوم اب اسی کے سبب
احکامِ دین سے بدظن ہو گئی ہے
وہ صنفِ نازک کہ جسے
شوقِ پروازِ بلندی ہے
ہو کر گم کہیں اسی شوق میں
اب میہجورِ نشیمن ہو گئی ہے
تھا کمال جسے چراغِ خانہ ہونے پے
حاصل اب دشمن کو ہو گئی ہے
کہ!
بنی زینت ہے جب سے
انجمنانِ دشمن کی
طبیعت ان کی اور روشن ہو گئی ہے
نکل چکا ہے جنازہ اب
سرِ عام عشرتوں کا
حیا گویا کہ ایندھن ہوگئی ہے
کسی شاخِ بریدہ کی طرح آج
ہوا کے زور پے ہے لڑکھڑاتی
سن سن کر کچھ عجیب باتیں
اب غیرت چاک دامن ہو گئی ہے
تھی پہلے دہشت گردی
سلسلے تھے قتل و غارت کے
اب ہے عورت گردی کی کہانی
جو سارے عالم میں کامن ہو گئی ہے
آنسو خون کے جاری ہیں"کوکب"
جیسے کوئی جھڑی ساون کی ہو گئی ہے
-----------------------------------------------------------------
نظم عنوان:صنف آہن ہیں ہما
از قلم: تہنیت آفرین ملک منڈی بہاوالدین
صنف آہن ہوں میں
میں تاریخ میں دہرائی جاتی ہوں
میں حوا بنی پیروں تلے جنت پاتی ہوں
میں ام موسی بنی لخت جگر قربان کرتی ہوں
میں مانند ہاجرہ آب زم زم پاتی ہوں
میں خدیجہ بنی شوہر کا حوصلہ بڑھاتی ہوں
میں عائشہ بنی محدث کا درجہ پاتی ہوں
میں خولہ بنی بھائی کع دشمنوں سے چھڑواتی ہوں
میں صفیہ بنی یہودیوں کی آنکھیں نکالتی ہوں
میں میدان جنگ میں مانند صاعقہ لپکتی ہوں
میں عائشہ بنی محرم کی محبوب کہلاتی ہوں
میں سمعیہ بنی پہلی شہیدا کا رتبہ پاتی ہوں
میں ام ایمن بنی میدان جنگ میں ہمراہی پاتی ہوں
میں حلیمہ سعدیہ بنی رضاعت کا انعام پاتی ہوں
میں رملہ بنی آسمان سے گواہی لاتی ہوں
میں نے دیکھے ہیں کئی آسمان بدلتے
میں روپ ہوں زمانے کس
میں مانند فولاد ہوں
کیونکہ
صنف آہن ہوں میں
----------------------------------------------------------------
نظم عنوان: صنف آہن
ازقلم: لیلی رب نواز
ہر حال میں جو ڈٹ جائے
مشکل سے نہ جو گھبرائے
ہمت سے جو ہر کام کرے
کامیابیاں اپنے نام کرے
جو بن جائے ، اک چٹان کی مانند
اور ، ٹکرائے طوفان کی مانند
جو خوف کی آنکھ میں گھاڑے آنکھ
ہر آنسو اپنا دھو ڈالے
بابا کا سر نا جھکنے دے جو
وہ بیٹی مان ہوتی ہے
وہ صنفِ نازک کب ہے پھر
وہ صنف آہن ہوتی ہے
--------------------------------------------------------------
نظم عنوان: نزاکتوں کے شانوں پر بارِ خاندان ہیں
ازقلم: عظمی ارم
روایتوں کی آن ہیں۔
معاشرے کا مان ہیں۔
گھروں کی نگہبان ہیں۔
چمن کی باغبان ہیں۔
رونق جہان ہیں۔
حسن کا بیان ہیں۔
قوت جہان ہیں ۔
گر چہ ناتوان ہیں
روح کاروان ہیں۔
سرو ں کا سائبان ہیں۔
آشیاں کی شان ہیں، ربطِ خاندان ہیں
نزاکتوں کے شانوں پر بارِ خاندان ہیں۔
خالق انسان ہیں ،خدا کی راز دان ہیں۔
وفا کی ترجمان ہیں، حیا کی قدر دان ہیں۔
جو بھی امتحان ہیں،یہ کڑی کمان ہیں۔
گھروں کی پشتبان ہیں، گو کہ دھان پان ہیں۔
نسل کی پاسبان ہیں،بڑی ہی مہربان ہیں۔
دلوں پہ حکمران ہیں،زینت جہان ہیں۔
بے صدا سی عورتیں بلا کی سخندان ہیں
نزاکتوں کے شانوں پر بار خاندان ہیں۔
انہی کے دم سے آنگنوں میں رونقیں بپا ہوئیں ۔
انہی کے دم سے بھائیوں کو برکتیں عطاء ہوئیں۔
انہی کے دم سے شوہروں کو راحتیں عطاء ہوئیں۔
انہی کے دم سے خاکیوں کو رفعتیں عطاء ہوئیں۔
انہی کے دم سے محفلیں رونق آ شنا ہوئیں ۔
انہی کے دم سے دنیائیں جنت آ شنا ہوئیں۔
ان کے پاک قدموں میں جنت دوام ہیں۔
نزاکتوں کے شانوں پر بارِ خاندان ہیں۔
---------------------------------------------------------------
نظم عنوان:صنف آہن
ازقلم: معفرہ لنگاہ زولواجسٹ
تتلیوں کی طرح اڑان ہے میری
بند کتاب کی طرح ہے زندگی میری
ہر صفحے ہر باب پہ مختلف امتحان ہیں میرے
میں جو سلجھا کہ جو ہر گھتی کو نکلو راہ حق پہ
تو سوچیں یہ کہ ہے صنف نازک
ہنسے یہ میری طاقت پہ
کیا جینا اتنا مشکل ہے
تو جئیں گے کیسے
یہ سوچتے سوچتے ہوئی ختم سوچیں
نکل پڑی سر پہ نصیحتوں کے انبار لے کے
جو لوٹوں گی تو ہوگی فاطمہ ،خدیجہ زہرا جیسے
نہ روک سکے جہاں مجھے
میری آوازیں دبا نہ سکا آسمان بھی
کیونکہ ہے بنت حوا جہاں
وہی سے ہے شروع ویران جہاں
وہی سے طبق روشن ہوگئے
کمزور نہیں بنت حوا کی بیٹیاں
اپنے بل بوتے پہ کردے
بنجر زمیں کو زرخیز باغ
دنیا ہوگی حیران
بنت ہوا ہی ہے اس دنیا کی شان
ہے بنت حوا تو ہے خوبصورتی
ورنہ اس جہاں میں کوئی
کہا صنف آہن کی طرح
--------------------------------------------------------------------
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں