صنف آہن آنلائن ڈائجسٹ کے دوسرے مقابلے کے رزلٹ کا اعلان ہو چکا ہے۔
پہلی پوزیشن
عنوان۔ محافظ لڑکی
از قلم آصفہ محمد ارشاد
وہ پروانوں کی طرح شمع رسالت کے گرد گھومتے ہوئے کفار کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں۔ اور آنے والے تیروں اور تلواروں کے وار کو نہایت بہادری سے روکتی ہیں ۔
انصار کے قبیلہ خزرج کے خاندان نجار سے تعلق رکھنے والی یہ بہادر خاتون حضرت نسیبہ بنت کعب رضی اللّٰہ عنہا ہیں ۔جو رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ کئی جنگوں میں شامل رہیں ۔غزوہ احد میں اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ شریک ہوئیں ۔جب مسلمان فتح یاب تھے تو دوسری صحابیات کے ساتھ مل کر مجاہدین کو پانی پلاتی رہیں۔ لیکن جب مسلمانوں کے قدم اکھڑ گئے۔ اور رسول اللّٰہ ﷺ کے ساتھ چند جان نثار احباب رہ گئے۔ اور کفار نے ہر طرف سے رسول اللّٰہ ﷺ پر یلغار شروع کر دی تو یہ ہوش ربا منظر دیکھ کر ام عمارہ سے رہا نہ گیا مشکیزہ پھینکتے ہوئے تلوار اٹھائی اور انتہائی بہادری کا مظاہرہ کیا ۔ابن قمیئہ ملعون کی طرف سے ہونے والے وار کو روکتے ہوئے کندھے پر گہرا زخم آیا ۔ان کے بیٹے حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایک کافر نے زخمی کر دیا ۔خون کو روکنے کے لیے اپنا کپڑا پھاڑ کر زخم پر باندھا ۔اور کہا کہ بیٹا اٹھو اور جہاد میں مشغول ہو جاؤ ۔اچانک بیٹے کو زخمی کرنے والا کافر سامنے آیا ۔رسول اللّٰہ نے فرمایا ام عمارہ تیرے بیٹے کو زخمی کرنے والا یہی ہے ۔یہ ارشاد سنتے ہی لپک کر اس شدت کے ساتھ اس کی ٹانگ پہ تلوار ماری کہ وہ دوبارہ اٹھ ہی نہ سکا ۔اور گھسٹتے ہوئے بھاگا ۔یہ منظر دیکھ کر رسول اللّٰہ ﷺ ہنس پڑے ۔
اس جنگ میں رسول اللہ کی حفاظت کرتے ہوئے جرات و بہادری کے وہ جوہر دکھائے کہ خود سرکار دو عالم ے باہمت مجاہدہ کا خطاب دیا اور خوش ہوتے ہوئے جنت میں دائمی رفاقت کی بشارت
سنائی
دوسری پوزیشن
عنوان محافظ لڑکی
از قلم عادیہ حنیف
یہ اس وقت کی سپر پاور سلطنت کے سلطان ہراقل کے دربار کا منظر ہے جہاں عام دنوں سے زیادہ مجمع اکٹھا تھاجہاں پہ خطہ عرب کے سپاہی کو پابند زنجیر بادشاہ کے دربار میں پیش کیا گیا ۔ مسلمانوں سے عارضی شکست خوردہ ہو کر ہراقل اپنا دارالحکومت چھوڑ کر یہاں آ گیا تھا لیکن اسلامی لشکر نے اسکا پیچھا نہ چھوڑا ۔غیض و غضب سے ہراقل کا چہرہ گلنار ہو رہا تھا تو دوسری طرف چلمن کے پیچھے چھپے ایک نازک وجود حیرت کا شکار تھا کہ اتنے تشدد کے بعد بھی یہ خوبصورت نوجوان ہراقل کے سامنے نظر جھکانے سے انکاری تھا ۔۔۔۔
کون ہو تم ؟ کیا تمہیں سپاہ سالار نے بھیجا ہے؟ تم میری مدد کیوں کر رہے ہو؟ لیکن وہ ہمدرد کوئی جواب دینے کے بجائے خدید کو محل سے باہر لے جانے میں کامیاب رہا ۔ لشکر کی طرف جاتے ہوئے رات کو ایک جگہ پہ قیام کیا گیا ۔خدید تو تھکن کی وجہ سے سو گیے لیکن وہ وجود ابھی تک جاگ رہا تھا کہ اچانک چوٹی کی اوٹ سے دو سائے نمودار ہوئے ،انکے پاس آتے ہی اس وجود نے تندہی سے ایک کی گردن اڑا دی اور دوسرے کو اپنے پاؤں سے دور جا گرایا ۔۔۔
یہ شارینہ ہے ہراقل کی بیٹی اور اب خدید کی زوجہ شارینہ فنون حرب سے واقف تھی اور جہاں جہاں اسلامی لشکر کو ضرورت تھی ویسے انہوں نے خدمات انجام دیں کہیں وہ جنگ کے دوران زخمیوں کو واپس خیموں میں لاتی دیکھائی دیتی ہیں تو کہیں ہراقل کی فوج میں گھس کر انکے راز سپاہ سالار تک پہنچا رہی ہوتی ہیں اور اس طرح ایک معصوم سی شہزادی نے مسلمانوں کو مصر فتح کرنے میں بہت مدد فراہم کی جو کہ تاریخ کے پنوں کی گرد کے نیچے اب بھی کہیں مدفن ہیں
تیسری پوزیشن
عنوان محافظ لڑکی
ازقلم رائمہ خان
تاریخِ اسلام ایسی خواتین کی مثالوں سے بھری ہوئی ہے جنکا جذبہ کسی پہاڑ اور دل کسی چٹان کی طرح مضبوط تھے,جنھوں نے ہمیشہ دینِ اسلام کی سر بلندی کی خاطر جانیں قربان کیں,اپنی اولاد,مال یہاں تک کہ خود جنگوں میں حصہ لیا اور رسول ﷺ کے دین کی حفاظت کی۔اُنکی رگوں میں خون کے ساتھ ساتھ دین کی سربلندی کا جوش اور ولولہ بھی گردش کرتا تھا۔یہ غزوۀ احد کا منظر تھا وہ(رضی اللہ عنہما) اپنے شوہر اور دو بیٹوں کے ساتھ غزوہ میں شامل ہوئیں۔جب کافروں نے رسولﷺ پر حملہ کرنا چاہا تو وہ آپ ﷺ کی ڈھال بن گئیں۔آپ ﷺکی طرف بڑھنے والے ہر تلوار اور خنجر کے وار کو اپنے اوپر لیتی رہیں۔یہاں تک کہ جب ملعون ابن قیمیہ نے آپ ﷺ پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو انھوں نے وہ وار اپنے اوپر لے لیا جسکی وجہ سے انکے کندھے پر گہرا زخم ہوگیا لیکن وہ جَری اعصاب کی مالک خاتون پھر بھی آپ ﷺ کی حفاظت کرتی رہی اور جواباً اُس ملعون پر زوردار وار کیا۔اس غزوہ میں اُنھوں نے اپنے جسم پر تیرہ زخم برداشت کئے,اُنکے بیٹے عبداللہ کا بیان ہے کہ ایک کافر نے اُن پر حملہ کر دیا اور اُنکے زخم سے خون بند نہیں ہورہا تھا تو اُنکی والدہ نے فوراً اپنا کپڑا پھاڑ کر باندھ دیا اور خون کے رُکتے ہی کہا کہ اُٹھو اور لڑو۔اور اتفاقاً وہ شخص اُم عمارہ رضی اللہ عنہما کے سامنے آگیا رسول ﷺ نے کہا اے ام عمارہ یہ وہی شخص ہے جس نے تمہارے بیٹے کو زخمی کیا تھا یہ سنتے ہی انھوں نے اُس کافر کی ٹانگ پر اِتنا زواردار وار کیا کہ وہ چلنے کے قابل بھی نا بچا۔اسی غزوہ میں آپ ﷺ نے اُنکے حق میں دعا بھی کی"اے اللہ اِن سب کو جنت میں میرا رفیق بنا"
تبصرے
ایک تبصرہ شائع کریں